متحدہ عرب امارات یمن میں کرائے کے جنگجو بھیج رہا ہے، رپورٹ
19 دسمبر 2015نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات یمن میں لڑائی کے لیے کولمبیا کے نجی فوجی بھرتی کر رہا ہے۔ ایک ذریعے کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ کولمبیا کے یہ نجی سپاہی اپنے ملک میں بائیں بازو کے گوریلوں اور منشیات کے اسمگلروں کے ساتھ لڑائی کا تجربہ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ متحدہ عرب امارات کی حکومت کے لیے بھی باعث کشش ہیں۔
متحدہ عرب امارات کی اپنی فوج نسبتاﹰ ناتجربہ کار ہے اور سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد کا حصہ ہونے کی وجہ سے یمن میں ایرانی حمایت یافتی حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ بوگوٹا میں کولمبیا کی فوج کے ایک سابق افسر کا کہنا تھا، ’’کولمبیا کے فوجی جنگجو گوریلوں کے خلاف لڑنے کی بہت مہارت رکھتے ہیں اور ان کی تربیت بھی اسی لحاظ سے کی گئی ہے۔‘‘ اس ذریعے کا مزید کہنا تھا، ’’کولمبیا کے فوجی کئی سالہ گوریلا جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں اور وہ اسے (یمنی تنازعے) کو بھی سنبھال سکتے ہیں۔‘‘
بلیک واٹر جیسی پرائیویٹ اور بین الاقوامی سکیورٹی کمپنیاں ملازمتوں کے لیے ماضی میں بھی کولمبیا کے فوجیوں کی خدمات حاصل کرتی رہی ہیں اور انہیں عراق، افغانستان اور سوڈان جیسے ملکوں میں تعینات کیا جاتا رہا ہے۔
اس نیوز ایجنسی کے مطابق اسے یہ معلومات فراہم کرنے والا اڑتالیس سالہ شخص خود بھی ماضی میں بلیک واٹر کا حصہ رہ چکا ہے۔ ماضی میں اس پرائیویٹ سکیورٹی فرم نے فوجی اور سکیورٹی خدمات فراہم کرنے کے لیے امریکی محکمہ دفاع کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ سن دو ہزار چار میں کولمبیا کے ان نجی فوجیوں کو لڑائی کے لیے عراق میں تعینات کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ افغانستان، متحدہ عرب امارات، قطر اور جبوتی میں اپنا کام کرتے رہے ہیں۔ لاطینی امریکی فوجی بلیک واٹر جیسی فرموں میں مقبول بھی ہیں۔ بلیک واٹر کے ایک سابق نجی سپاہی کے مطابق سن دو ہزار چار اور دو ہزار چھ کے درمیان بلیک واٹر نے کولمبیا کے پندرہ سو، پیرو کے ایک ہزار اور چلی کے پانچ سو ’پرائیویٹ سولجر‘ بھرتی کر رکھے تھے۔
بتایا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے کولمبیا کے نجی فوجیوں کی بھرتی کا کام سن دو ہزار دس میں شروع کیا تھا اور اس کا مقصد صحرا کے وسط میں ’زید ملٹری سٹی‘ نامی بیس پر ایک پرائیویٹ آرمی تشکیل دینا تھا۔ بلیک واٹر کے سابق کنٹریکٹر اور کولمبیا کے ایک سابق فوجی کا کہنا تھا کہ یو اے ای حکومت نے اُس وقت کولمبیا کے نجی فوجیوں کو ماہانہ تین ہزار تین سو ڈالر تنخواہ پر رکھا تھا، جو کہ دیگر نجی سکیورٹی کمپنیوں کی نسبت پانچ گنا کم ہے لیکن کولمبیا کے لحاظ سے یہ پھر بھی اچھا معاوضہ تھا۔ اس ذریعے کا مزید کہنا تھا، ’’ان کی بھرتی کسی جنگی مشن کے لیے نہیں کی گئی تھی۔ یہ سکیورٹی اور حفاظتی مشن کے لیے تھے۔‘‘
تاہم ایک ماہ پہلے متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھرتی کیے گئے کولمبیا کے تین ہزار نجی فوجیوں میں سے تین سو نے ’رضاکارانہ طور‘ پر یمنی جنگ میں شمولیت کا اعلان کیا اور انہیں بندرگاہی شہر عدن میں تعینات کیا گیا۔
ان کی تعیناتی کا فیصلہ یمن میں تیس اماراتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات یمن میں آٹھ سو نجی فوجی بھیجنا چاہتا تھا لیکن زیادہ تر فوجیوں نے اپنے معاہدے کو بنیاد بناتے ہوئے وہاں جانے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تعیناتی متحدہ عرب امارات میں طے ہوئی تھی نہ کہ کسی دوسرے ملک میں۔
یو اے ای ان نجی فوجیوں کو اب وہاں زیادہ سے زیادہ تین ماہ کے لیے تعینات کر رہا ہے اور جنگ میں شمولیت پر روزانہ 120 امریکی ڈالر اضافی طور پر ادا کر رہا ہے۔