مساجد کے مینار اور برقع نا منظور، جرمن جماعت AfD کا منشور
1 مئی 2016جرمنی میں یہ نئی مہاجر مخالف سیاسی جماعت ابھی تین سال قبل معرضِ وجود میں آئی تھی۔ اس جماعت کی مقبولیت میں یورپ میں جنم لینے والے مہاجرین کے اُس بحران کے سبب اضافہ ہوا ہے، جس کے دوران صرف جرمنی میں ہی گزشتہ برس ایک ملین سے زائد مہاجرین پہنچے۔ ان مہاجرین میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں۔ ابھی اس جماعت کو وفاقی جرمن پارلیمان میں نمائندگی حاصل نہیں ہے تاہم اس کے متعدد اراکین جرمنی کے سولہ میں سے نصف صوبوں کی اسمبلیوں میں پہنچ چکے ہیں۔
جرمنی میں آئندہ عام انتخابات 2017ء میں منعقد ہونے والے ہیں اور رائے عامہ کے تازہ جائزوں کے مطابق اس جماعت کو آج کل چَودہ فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح یہ جماعت چانسلر انگیلا میرکل کے قدامت پسندوں کے ساتھ ساتھ دیگر بڑی جماعتوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کوئی بھی آئندہ انتخابات کے بعد ’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اِس وِیک اَینڈ پر اس جماعت کی دو روزہ پارٹی کانگریس شہر اشٹٹ گارٹ میں منعقد ہو رہی ہے۔ جب اسٹیج پر مقررین نے ’طاقت کی اسلامی علامات‘ کے خلاف اقدامات کا ذکر کیا تو دو ہزار سے زیادہ مندوبین میں سے بہت سوں نے تالیاں بجا کر خیر مقدم کیا۔ جب جرمنی میں مسلمانوں کے ساتھ مکالمت کی بات کی گئی تو بھی مذاق اڑایا گیا۔
تالیوں کی گونج میں جرمن صوبے سیکسنی انہالٹ کے اے ایف ڈی سے تعلق رکھنے والے صوبائی رکنِ پارلیمان ہنس تھوماس ٹِل شنائیڈر نے کہا: ’’اسلام ہمارے لیے اجنبی ہے اور اسی لیے یہ مذہبی آزادی کے اصولوں کی اُس سطح کا مطالبہ نہیں کر سکتا جیسی کہ مسیحیت کو حاصل ہے۔‘‘
چانسلر میرکل کہہ چکی ہیں کہ جرمن آئین میں ہر شہری کو مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ وہ کئی مواقع پر یہ بھی کہہ چکی ہیں کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے۔
ہفتہ تیس اپریل کو دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی جماعت اے ایف ڈی کی کانفرنس کے پہلے روز بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کوئی دو ہزار مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا۔ پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق اس تصادم کے بعد تقریباً پانچ سو مظاہرین کو عارضی طور پر حراست میں لے لیا گیا جبکہ دس پولیس اہلکار معمولی زخمی ہو گئے۔
اے ایف ڈی کے منشور میں مسلمانوں سے متعلق باب کا عنوان رکھا گیا ہے، ’اسلام جرمنی کا حصہ نہیں ہے‘۔ اس منشور میں مساجد کے میناروں اور خواتین کے برقعے پر پابندی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ جرمنی میں بسنے والے تقریباً چار ملین مسلمان مجموعی آبادی کا پانچ فیصد بنتے ہیں۔