مسلمانوں کی امریکا آمد محدود بنانے کا منصوبہ ’پابندی‘ نہیں
26 جنوری 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’دنیا بدحال‘ ہے اس لیے کچھ مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی امریکا آمد کی تعداد کو کم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ نشریاتی ادارے اے بی سے سے گفتگو کرتے ہوئے بدھ کے دن ٹرمپ نے تردید کی کہ یہ منصوبہ مسلمانوں پر پابندی تصور نہیں کیا جانا چاہیے، ’’نہیں۔ یہ مسلمانوں پر پابندی نہیں ہے۔ لیکن ان ممالک میں شدید دہشت گردی ہو رہی ہے۔‘‘
مہاجرین اور سات ملکوں کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی کا منصوبہ
تین ملین مہاجرین کو امریکا سے نکالا جائے گا، نامزد امریکی صدر ٹرمپ
امریکی صدر نے کہا کہ یہ وہ ممالک ہیں، جہاں کے لوگ امریکا آ کر شدید مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلے ہی امریکا کو بہت سے مسائل کو سامنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ان مسلم ممالک کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی تاہم کہا کہ جرمنی اور یورپ نے ان ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کو پناہ دے کر ایک بہت بڑی غلطی کی ہے، ’’جو کچھ یورپ میں ہو رہا ہے، وہ تباہ کن ہے۔‘‘
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے تحت پابندی کا شکار ہونے والے ممالک میں شام بھی شامل ہے، جو اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اے ایف پی نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے مزید بتایا ہے کہ بارڈر یو ایس ریفیوجی ایڈمیشن پروگرام ایک سو بیس دن کے لیے معطل کر دیا جائے گا جبکہ ممکنہ دہشت گردی کے خطرات کے تحت عراق، شام، ایران، سوڈان، لیبیا، صومالیہ اور یمن سے موصول ہونے والی تمام ویزا درخواستوں پر تیس دنوں کے لیے عملدرآمد روک دیا جائے گا۔
جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ ان کا یہ اقدام مسلم دنیا میں غصے کا باعث بن سکتا ہے تو انہوں نے کہا، ’’غصہ؟ پہلے ہی بہت غصہ پایا جا رہا ہے۔ دنیا بدحال ہے۔ دنیا غصے سے بھری ہوئی ہے۔ ہم عراق گئے، جہاں ہمیں نہیں جانا چاہیے تھا۔ جس طرح ہم عراق سے نکلے، ہمیں وہاں سے ویسے نہیں نکلنا چاہیے تھا۔ یہ دنیا مکمل طور پر بدحال ہے۔‘‘
اس مجوزہ منصوبے کے تحت امریکی صدر کی کوشش ہے کہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ جات کے برعکس دو ہزار سترہ کے مالی سال کے دوران امریکا آنے والے مہاجرین کی تعداد نصف کر دی جائے۔ امریکا کا مالی سال تیس ستمبر کو ختم ہوتا ہے۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے اس عرصے کے دوران ایک لاکھ سے زائد مہاجرین کو قبول کرنے کا ہدف بنا رکھا تھا تاہم اب نئی امریکی انتظامیہ اس تعداد کو پچاس ہزار بنانے کی کوشش کرے گی۔