مشال خان: سول سوسائٹی کا احتجاج، سیاستدانوں کی محض ’باتیں‘
14 اپریل 2017پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس واقعے کی مذمت کی لیکن کئی ناقدین سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ حملہ آوروں میں انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان بھی شامل تھے جب کہ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ اور پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان بھی اس ہجوم میں شامل تھے، جس نے طالبِ علم مشال خان کو ہلاک اور ایک اور طالبِ علم کو زخمی کیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما بشریٰ گوہر نے اس حوالے سے بتایا، ’’میں نے پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان سے اس مسئلے پر بات کی ہے۔ ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ہماری طلبہ تنظیم کے کارکنان بھی حملہ آوروں میں شامل تھے لیکن کچھ دوسرے کارکنان کا کہنا ہے کہ ہماری طلبہ تنظیم اس میں ملوث نہیں تھی۔ قطعِ نظر اس کے کہ کس نے یہ کیا، جو بھی اس میں ملوث ہے اور اس کی سیاسی وابستگی خواہ کچھ بھی ہو، انہیں کڑی سے کڑی سزا ملنے چاہیے۔ ہم اس واقعے کی پُرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ یہ اس ریاستی پالیسی کا نتیجہ ہے، جس کے تحت ہم نے اچھے اور برے طالبان کی اصطلاحیں ایجاد کیں۔ اس پالیسی نے معاشرے میں عدم رواداری کی ثقافت کو فروغ دیا، جو اب سماج کی رگ وپے میں سرایت کر گئی ہے۔ ہماری جماعت کے بھی بعض رہنماؤں نے ماضی میں ایسے بیانات دیے، جو سماج کی اس مجموعی عدم رواداری کی مضبوط جڑوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ افسوناک واقعہ ہماری حکومت اور ریاست کی ناکامی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہم اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اس پر ازخود نوٹس لیتی ہے یا نہیں۔ ہماری پارٹی اس مسئلے پر ایک باقاعدہ بیان بھی جاری کرے گی۔‘‘
جماعت اسلامی کے رہنما غفار عزیز نے اس مسئلے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مجھے اس واقعی کی تفصیلات نہیں معلوم، لہٰذا میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی جمعیت طلبہ اس میں ملوث نہیں ہو سکتی۔‘‘
جب ڈی ڈبلیو نے جمعیت علماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل اویس نورانی سے اس مسئلے پر بات کرنا چاہی تو انہیں نے دس منٹ بعد کال کرنے کو کہا۔ تاہم بعد میں کال کرنے پر انہیں فون نہیں اٹھایا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم اپنے پیارے نبی کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتے لیکن اگر کسی نے ایسا کام کیا بھی ہو تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے شخص کو قانون کی گرفت میں لائے۔ افراد کو اس مسئلے پر قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے توہین آمیز مواد پر حکومت کی حمایت کی ہے۔ اسلامی ممالک کے سفراء سے بھی اس حوالے سے تعاون کرنے پر بات چیت ہوئی ہے۔ تو ریاست کو اس مسئلے کے حل کرنا ہے۔ افراد کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون ہاتھ میں لیں۔ ہماری پارٹی طالب علم کی ہلاکت والے واقعے پربہت افسردہ ہے۔‘‘
مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ واقعہ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم رواداری کے رجحان کا عکاس ہے۔ یہ جو ہم نے ایک دوسرے کو کافر کافر کہنے کا سلسلے شروع کیا ہوا ہے، یہ معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گا۔ اس واقعے کی پوری تحقیقات ہونی چاہیے۔ اگر اسی طرح لوگ اپنے ہاتھ میں قانون لیتے رہے تو پھر ہمارا ملک ایک بنانا ریپبلک بن جائے گا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہمارے گورنر کے پی نے سب سے پہلے اس واقعے کا نوٹس لیا اور رپورٹ طلب کی۔ اس کے علاوہ ایک وزیر نے بھی اس حوالے سے بیان دیا۔ ضروری نہیں کہ وزیرِ اعظم ہر مسئلے پر کوئی بیان جاری کریں۔‘‘
قائدِ اعظم یونیورسٹی سے وابستہ عالیہ امیر علی نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم نے آج اس واقعے کے خلاف یونیورسٹی میں احتجاج کیا لیکن جتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو آنا چاہیے تھا، وہ نہیں آئے۔ ایک قلیل تعداد یونیورسٹی میں جمع ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک بھر میں اس واقعے کے خلاف مظاہرے ہوتے، اساتذہ، طالب علموں اور تمام شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اس پر احتجاج کرنا چاہیے تھا۔ اس مذہبی جنونیت کو صرف پولیس یا ریاست نہیں روک سکتی، سماج کو اس کے لیے آگے آنا پڑے گا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اس مسئلے پر خاموشی چھائی ہوئی ہے، جو بہت خطرناک ہے۔ ہمیں اپنے نصاب اور اپنی ریاستی پالیسی کو بدلنا ہو گا ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہم مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہوں گے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہم نے اپنے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں ایک جج بیٹھ کر انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جب ایسے ادارے، جن کا کام عوام کی حفاظت کرنا اور انہیں تحفظ پہنچانا ہے، وہ ایسے کام کریں گے تو پھر معاشرے کا کیا حال ہو گا۔ ہر تنقیدی سوچ پر الزامات لگا کر اسے بند کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ یہ بہت خطرناک رجحان ہے، جس کا فوری سدباب ضروری ہے۔‘‘
پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے عمار جان نے ڈی ڈبلیو سے اس مسئلے پر بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اب یہ مسئلہ صرف مذمتی بیانات سے حل نہیں ہو گا بلکہ سیاسی جماعتوں کو آگے آنا پڑے گا اور انہیں عدم رواداری کی اس لہر کے خلاف عملی اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔‘‘
تجزیہ نگار عرفان چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’فاشسٹ مذہبی جماعتیں معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ انہیں منطق کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ دلیل کی زبان نہیں سمجھتے۔ سول سوسائٹی ان کے خلاف مظاہر ے کر سکتی ہے لیکن وہ طاقت مجتمع نہیں کر سکتی، جو ان کی یلغار کو روکے۔ یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ ان فاشسٹ قوتوں کو اسی زبان میں جواب دیں، جو یہ سمجھتے ہیں یعنی طاقت کی زبان۔‘‘