مشرقی لیبیا میں مغربی باشندوں کو خطرہ، امریکا کا محتاط ردِعمل
25 جنوری 2013امریکی اور یورپی ذرائع کا کہنا ہے کہ لیبیا کے شہر بن غازی میں مغربی باشندوں کو قتل کرنے کے حوالے سے اسلامی شدت پسندوں کی دھمکیوں کا مرکز یورپی شہری ہیں نہ کہ امریکی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی اور یورپی حکام شدت پسندوں کے ممکنہ ہدف میں سے امریکیوں کو منہا کرتے نظر آتے ہیں۔
جمعرات کے روز تین یورپی ممالک کی جانب سے بن غازی میں موجود اپنے باشندوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ بن غازی چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مغربی باشندوں کے قتل کرنے کے حوالے سے شدت پسندوں کی دھمکیوں پر امریکی خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بن غازی میں اب بہت ہی کم امریکی شہری موجود ہیں۔ گزشتہ برس ستمبر میں بن غازی میں قائم امریکی قونصل خانے پر اسلامی عسکریت پسندوں کے حملے میں امریکی سفارتکار کرسٹوفر اسٹیونز اور تین دیگر امریکی شہریوں کے ہلاکت کے بعد سے وہاں امریکی باشندوں کی موجودگی نظر نہیں آتی۔
جمعرات کے روز برطانوی دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بن غازی میں مغربی باشندوں کو واضح خطرات لاحق ہیں، اس لیے برطانوی باشندے فوری طور پر یہ شہر چھوڑ دیں۔ برطانوی دفتر خارجہ کے بعد جرمنی اور ہالینڈ نے بھی اپنے باشندوں کو بن غازی سے نکل جانے کی ہدایات کی ہیں اور کہا ہے کہ وہ مشرقی لیبیا کی جانب سفر سے گریز کریں۔
جمعرات کے روز امریکی وزیر خارجہ لیون پنیٹا کی جانب سے سامنے آنے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں مشرقی لیبیا میں موجود امریکی باشندوں کو مدد فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی، تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ صورتحال ’انتہائی خطرناک‘ ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون میں ایک نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پنیٹا نے کہا، ’جہاں تک میری معلومات ہیں، ہمیں بن غازی سے کسی کو باہر نکالنے کے لیے نہیں کہا گیا ہے۔‘
روئٹرز کا کہنا ہے کہ برطانوی حکام کی جانب سے شہریوں کو بن غازی سے نکل جانے کی ہدایت دراصل اس خفیہ معلومات کی روشنی میں جاری کی گئی ہے، جو امریکی اور یورپی حکومتوں کی جانب سے برطانیہ کو فراہم کی گئی ہیں۔
(at / ah (Reuters