مغرب لیبیا میں بے بس نظر آ رہا ہے
31 جولائی 2014لیبیا کے آمر حکمران معمر قذافی کا تختہ اُلٹنے کی مہم میں مغربی دنیا کا کردار غیر معمولی رہا ہے تاہم اُس واقعے کے تین سال بعد اسی ملک میں سیاسی عدم استحکام اور حریف ملیشیا گروپوں کے مابین ہونے والی خونریز جھڑپوں کی شدت اس امر کی نشاندہی ہے کہ مغربی طاقتیں بھی اس صورتحال کے آگے بے بس ہیں اور لیبیا مزید شکست و ریخت کے دھانے پر کھڑا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مغربی دنیا کی طرف سے لیبیا کی تعمیر نو اور اُس کی فوج کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو دور کر کے اسے ایک بہتر ادارہ بنانے کی کوششیں اب تک ناکامی سے دوچار رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے مغربی ممالک نے متعدد کانفرنسوں کا اہتمام بھی کیا تاہم تمام کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔
نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی
1951ء میں لیبیا نے اطالوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی حاصل کر لی تھی تب سے لیبیا کے عوام اپنی آزادی برقرار اور محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ مغرب کو اپنے ملکی معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کی طرف سے لیبیا کو دی جانے والی پیشکش پر لیبیا کے عوام کان نہیں دھر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لیبیا میں قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج اور معیشت کی تعمیر نو میں ناکامی دراصل اس ملک کے دیرینہ تنازعات میں دوبارہ سے شدت پیدا ہونے کا سبب بنی ہے۔
تازہ جھڑپیں
قذافی دور کے خاتمے کے بعد سے لیبیا میں ملیشیا گروپوں کے مابین ملک کی اہم ترین تنصیبات پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہونے والی تازہ جھڑپوں میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران متعدد انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں، موجودہ صورتحال کے پیش نظر فرانس جیسے مغربی ملک نے وہاں سے اپنے باشندوں کو انخلاء کا حکم دے دیا۔
کیمبرج یونیورسٹی میں لیبیا کے امور پر تحقیق کرنے والے ایک ریسرچر جیسن پیک کہتے ہیں، ’’ میں 2011ء کے بعد لیبیا میں تعمیر نو اور اس ملک میں مغربی دنیا کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کا ایک بڑا قائل ہوا کرتا تھا تاہم میرا یہ کہنا تھا کہ ایسا مزید اُس وقت کیا جانا چاہیے جب لیبیا کے عوام اس کی خواہش ظاہر کریں۔‘‘
جیسن پیک کا مزید کہنا تھا، " لیبیا میں جاری بحران اور آئے دن وہاں ہونے والی مسلح جھڑپوں کی وجہ یہ ہے کہ وہاں مرکزی حکومت کی رٹ ناکام ہے اور ملیشیا کے پاس تمام تر اختیارات ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے کہ مرکزی حکومت وجود ہی نہیں رکھتی" ۔
فوجی مداخلت لا حاصل
جیسے جیسے لیبیا کی صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے اور وہاں انتشار بڑھ رہا ہے ویسے ویسے یہ سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ’ کیا لیبیا میں فوجی مداخلت ایک غلطی تھی؟
ماضی میں طرابلس میں بطور سفارتکار کام کرنے والے فرانسیسی ڈپلومیٹ پیٹرک حیم زادے کا کہنا ہے کہ یہ ملک شدید انتشار کا شکار ہے اور یہاں انضمام کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اُن کے بقول،"کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ دس سالوں میں شام، عراق اور لیبیا تینوں سابقہ نوآبادیاتی ممالک یا کالونیاں، جو آمرانہ حکمرانی کا شکار رہی ہیں، وجود میں رہ سکیں گی یا نہیں اور ان کا کیا بنے گا؟
فرانسیسی سفارتکار حیم زادے کا کہنا ہے کہ "عراق اور افغانستان کی جنگ کے بعد امریکیوں کو یہ ادراک ہوا کہ فوجی مداخلت سے کبھی بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا"۔