موصل کی لڑائی میں نو ہزار سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے
20 دسمبر 2017خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ہلاکتوں کی یہ تعداد اُس سے قریب 10 گنا زیادہ ہے، جو قبل ازیں سامنے آئی تھی۔ موصل کو دہشت گرد گروپ داعش کے قبضے سے چھڑانے کے لیے نو ماہ تک جاری رہنے والی فوجی کارروائی کے دوران ہونے والی ان ہلاکتوں کی تصدیق نہ تو عراقی حکومت یا اس کے اتحادیوں کی طرف سے کی گئی ہے اور نہ ہی داعش کی طرف سے۔
تاہم موصل میں قبریں کھودنے والے، مردہ خانوں میں کام کرنے والے اور تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے لاشیں نکالنے والے امدادی کارکن مرنے والوں کی تعداد کا حساب رکھتے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی یہ تحقیق دراصل اسی طرح کے افراد، مردہ خانوں کے ریکارڈ اور غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار کے تجزیوں پر مبنی ہے۔
اس تحقیق کے مطابق اکتوبر 2016ء میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے آغاز سے لے کر جولائی 2017ء میں داعش کے موصل سے خاتمے تک کے نو ماہ کے دوران کم از کم 3,200 ہلاکتوں کے ذمہ دار اتحادی فوجی دستے تھے۔ یہ ہلاکتیں فضائی حملوں، توپ خانے سے بمباری اور مارٹر گولوں کے استعمال کے سبب ہوئیں۔
اتحادی فورسز، جن کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اتنے ذرائع نہیں ہیں کہ وہ تفتیش کاروں کو موصل بھیج سکیں، یہ تسلیم کرتی ہیں کہ اس آپریشن کے دوران ان کے حملوں میں 326 سویلین ہلاکتیں ہوئیں۔
عراق میں فضائی حملوں اور توپ خانے سے بمباری کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد وشمار جمع کرنے والی تنظیم ’ایئر وارز‘ نے بھی اس سلسلے میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو اپنے ڈیٹا تک رسائی دی۔ اس تنظیم کے سربراہ کِرس وُڈ نے اس خبر رساں ادارے کو بتایا، ’’دو نسلوں کے دوران کسی شہر پر یہ سب سے بڑی فوجی کارروائی تھی۔ اس دوران ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے۔‘‘
’ایئر وارز‘ کے علاوہ ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس مقصد کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ’عراق باڈی کاؤنٹ‘ اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ سے بھی اعداد و شمار حاصل کیے۔ اس مقصد کے لیے موصل کے مردہ خانے سے بھی 9,606 ایسے افراد کے ناموں کی فہرست حاصل کی گئی، جو موصل کو داعش کے قبضے سے آزاد کرانے کے اس آپریشن کے دوران ہلاک ہوئے۔