مہاجرین ’سمندر سے زیادہ صحرا میں‘ مر رہے ہیں
16 جولائی 2016ڈنمارک کی کونسل برائے مہاجرین سے منسلک ایک تنظیم نے جمعہ پندرہ جولائی کی شام اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسے ایسے شواہد ملے ہیں کہ سمندر کے ذریعے افریقہ سے یورپ پہنچنا صحرا کو عبور کر کے ایک براعظم سے دوسرے تک پہنچنے کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔ صحرا میں سفر کرنے والوں کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ہزاروں کی تعداد میں افراد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے بحریہ روم کا سمندری سفر کر کے یورپی ساحلوں تک پہنچے ہیں۔ ہزاروں افراد ایسے بھی ہیں جو ڈوب کر ہلاک ہو گئے، اور ہزاروں کو کوسٹ گارڈز بچا بھی چکے ہیں۔ لہٰذا مہاجرین کی ایک تنظیم کا یہ بیان کہ سمندری سفر سے زیادہ پر خطر صحرا کا راستہ ہے، اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اب تک ماہرین کی توجہ سمندر میں ہلاک ہونے والے مہاجرین پر ہی رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’مہاجرین اور پناہ کے متلاشی قرن افریقہ سے لیبیا، مصر اور پھر یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ صحرائے صحارا میں سفر کے دوران ہلاک ہو جانے والوں کی تعداد ان سے زیادہ ہے جو بحیرہ روم کے پانیوں میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم افسوس کی بات ہے کہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔‘‘
اس تنظیم کے مطابق اس نے سن دو ہزار چودہ سے لے کر دو ہزار سولہ تک ایک ہزار تین سو تارکین وطن کے انٹرویو کیے، جن سے معلوم ہوا کہ لیبیا، سوڈان اور مصر سے صحرائی سفر کے دوران اس عرصے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار دو سو پینتالیس کے لگ بھگ تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’انتہائی کم تعداد میں مہاجرین سے انٹرویوز کے دوران ہلاک ہونے والوں کی جو تعداد سامنے آئی ہے، وہ اس اصل تعداد سے کہیں کم ہے جس میں لوگ صحرا میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ صحرائی سفر میں جان کھو دینے والے افراد کی تعداد سمندر میں ڈوب کر مرنے والے مہاجرین سے زیادہ ہے۔‘‘
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نامی تنظیم، جس کے اعداد و شمار کو اکثر خبروں میں پیش کیا جاتا ہے، کا کہنا ہے کہ اس کی اطلاعات کے مطابق صحارا اور شمالی افریقہ میں گزشتہ برس صرف ایک سو تین افراد ہلاک ہوئے، تاہم مرنے والوں کی تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
اِمسال بذریعہ سمندر اٹلی پہنچنے کی کوشش میں ان تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد ڈھائی ہزار کے قریب ہو چکی ہے جب کہ گزشتہ برس ایسے ہلاک شدگان کی تعداد دو ہزار نو سو کے لگ بھگ رہی تھی۔
صحرا میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے افراد کی موت کی بڑی وجوہات بیماری، ادویات کا فقدان، بھوک اور گاڑیوں کے حادثے بتائی گئی ہیں جبکہ کئی افراد چاقوؤں سے حملوں اور فائرنگ کی وجہ سے بھی ہلاک ہوئے۔