مہاجرین کے بحران کا ذمہ دار مغرب ہے، سابق چینی سفارت کار
2 نومبر 2015وُو سائک نامی سابق سینئر سفارت کار چین کے خصوصی مندوب برائے مشرق وسطیٰ رہ چکے ہیں۔ خبررساں ادارے روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق وُو سائک کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک نے 2010ء کے اواخر میں عرب ممالک میں شروع ہونے والے انقلاب کو اپنے ایجنڈے کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔
حالیہ مہاجرین کے بحران میں سب سے زیادہ پناہ گزین شورش زدہ ملک شام سے يورپ کا رخ کر رہے ہیں۔ چین نے بارہا شامی تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ بيجنگ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ شام میں مسلح مداخلت سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔
مہاجرین کے حالیہ بحران کو حل کرنے کے حوالے سے یورپی یونین کے رکن ممالک میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یورپی یونین حالیہ عرصے میں مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ میں جنگ اور غربت کے باعث یورپ کا رخ کرنے والے لاکھوں مہاجرین سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یورپ کی مضبوط ترین معیشت کے حامل ملک جرمنی میں سب سے زیادہ تعداد میں مہاجرین پہنچ رہے ہيں۔
وُو سائک ان دنوں چینی وزارت خارجہ کے لیے مشیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ کیمونسٹ پارٹی میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں وُو سائک لکھتے ہیں، ’’مخملی انقلاب (colour revolution) کی میکانکی طور پر نقل کرنے اور مغربی ترقی اور سیاسی نظام کو مسلط کرنے سے نہ صرف جمہوریت اور ذریعہ معاش میں بہتری نہیں ہو سکتی بل کہ اس کے باعث خطے میں تشدد اور خون ریزی کا نہ ختم ہونے والا شروع ہو جائے گا۔‘‘
’مخملی انقلاب‘ سے مراد وہ عوامی بغاوتیں ہیں جو رواں صدی کے آغاز میں یوکرائن اور دیگر سابق سوویت ریاستوں میں شروع ہوئی تھيں۔ ان بغاوتوں کے باعث سابق سوویت ریاستوں میں طویل عرصے سے برسر اقتدار حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنا پڑ گيا تھا۔
وُو سائک کا مزید کہنا تھا کہ مغرب کو مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں شروع ہونے والی اسی قسم کی تحریکوں، جنہیں ’عرب بہار‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے، کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ سائک کے مطابق، ’’امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے دوسرے ممالک میں مداخلت کرنے کی پالیسی، مشرق وسطیٰ میں تبدیلی لانے اور مغربی اقدار کو فروغ دینے کی کوششیں مہاجرین کے موجودہ بحران کا سبب بنیں۔‘‘
چینی حکام سابق سوویت ریاستوں میں ’مخملی انقلاب‘ کے باعث حکومتوں کا تختہ الٹنے اور اس کے بعد ان ممالک میں پیدا ہونے والی صورت حال کو اکثر اپنی عوام کے لیے ایک انتباہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ کیمونسٹ پارٹی چین میں 1949ء سے مسلسل اقتدار میں ہے اور وہ اختلاف رائے کو بہت کم برداشت کرتی ہے۔
تیل کے لیے اس خطے پر انحصار کے باوجود چین کی مشرق وسطیٰ میں سفارت کاری مغرب کی نسبت بہت محدود ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی کی تعیناتی جیسے اقدامات کے ذریعے چین بھی علاقے میں مزید فعال کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔