مہاجرین کے مخالفین کے خلاف جرمن میڈیا اور اہم شخصیات متحد
30 اگست 2015جرمن اخبار ’بِلڈ‘ نے اپنے صفحہٴ اول پر شہ سرخی لگائی ہے: ’We're helping‘۔ اسی اخبار نے مہاجرین کی معاونت اور مدد کے لیے چندے کی ایک بڑی مہم بھی شروع کی ہے۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ مہاجرین اور پناہ گزینوں سے نفرت کرنے والے جرمنی کے نام پر بات کرنے سے گریز کریں۔ کئی جرمن اپنے وطن کے نازی دور کے ماضی کے حوالے سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ جرمنی ایک ترقی یافتہ ملک ہوتے ہوئے جنگ زدہ اور بحرانوں کے شکار علاقوں کے متاثرین کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔
جرمن نیوز میگزین ’ڈیئر اشپیگل‘ نے اپنی حالیہ اشاعت کے دو مختلف ٹائٹل چھاپے ہیں۔ ایک ٹائٹل پر ’ڈارک جرمنی‘ یا ’تاریک جرمنی‘ کے الفاظ کے ساتھ ایک جلتا ہوا ریفیوجی سینٹر دکھایا گیا ہے اور دوسرے ٹائٹل پر ’برائٹ جرمنی‘ یا ’روشن جرمنی‘ کی تصویر چھاپی گئی ہے۔ اس تصویر میں مہاجرین کے بچوں کو غباروں سے کھیلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس میگزین نے اپنے قارئین سے کہا ہے کہ وہ انتخاب وہ خود کر لیں۔ میونخ سے شائع ہونے والے اخبار ’زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ‘ نے عوام کی رہنمائی کرتے ہوئے تفصیلات شائع کی ہیں کہ وہ عطیے کے طور پر کپڑے اور خوراک نئے آنے والے مہاجرین تک کیسے پہنچا سکتے ہیں۔ اہم جرمن شخصیات بھی مہاجرین کی مدد اور خیراتی عمل میں شریک ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ان میں کھلاڑی اور اداکار خاص طور پر نمایاں ہیں۔ جرمن وزیر داخلہ تھومامس ڈے میزیئر نے حالیہ صورت حال کے تناظر میں اپنے ایک تازہ انٹرویو میں اپنے وطن کو ’کھلے پن اور برداشت کا مظاہرہ کرنے والا ملک‘ قرار دیا ہے۔
جرمنی کا مشرقی قصبہ ہائیڈےناؤ مہاجرین کو اپنے ہاں کھپانے اور انتہائی دائیں بازو کے مظاہرین کی وجہ سے کشمکش کی علامت بن گیا ہے۔ اِس قصبے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو رکھا جا رہا ہے۔ اِن کی آمد کے خلاف پولیس کے ساتھ مہاجرین مخالف مظاہرین کی جھڑپوں میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ مظاہرین ہائیڈےناؤ کو ان کے بقول ایک ’ریفیوجی سینٹر‘ بنانے کے خلاف ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے خاص طور پر اِس قصبے کا دورہ کر کے مظاہرین کی مذمت کی تھی۔ ہائیڈےناؤ میں جرمن چانسلر کے خلاف انتہائی دائیں بازو کے افراد نے آوازے کستے ہوئے انہیں غدار تک کہا تھا۔
اندازوں کے مطابق رواں برس کے دوران جرمنی میں پناہ کے متلاشی نئے غیر ملکیوں کی تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ آج کل یورپ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کے سب سے بڑے ’مہاجرین کے بحران‘ سے نبرد آزما ہے۔ جرمنی میں مہاجرین کی آمد کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شریک افراد کو واشگاف پیغام دیا گیا ہے کہ حکومت ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرے گی۔ جرمن میڈیا بھی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے مظاہرین نے مہاجرین کے مراکز کو نشانہ بنانے کے علاوہ اُن کے لیے مختص کردہ رہائش گاہوں تک پر پرتشدد حملوں سے گریز نہیں کیا تھا۔