مہاجر بن کر یورپ آنے والا شامی مصور اب کامیاب ناول نگار بھی
19 اپریل 2016گزشتہ سال نومبر میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں دہشت گردانہ حملوں کے دور روز بعد جب لوگوں کا ایک ہجوم ان واقعات میں ایک سو تیس افراد کی ہلاکت پر اظہارِ افسوس کے لیے پیرس کے ری پبلک اسکوائر میں جمع تھا تو ایک جوڑے کی تصویر پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ سے نشر کی گئی۔ خاتون فرانسیسی تھی اور مرد تقریباً چار سال پہلے شام سے آیا ہوا ایک پناہ گزین۔ دونوں بوس و کنار میں مصروف تھے اور دونوں نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا، جس پر لکھا تھا کہ ’جیت بالآخر محبت کی ہو گی‘۔
تب باریش اور بھاری بھر کم تیس سالہ سلیمان محض ایک شامی پناہ گزین تھا جبکہ اس واقعے کے تین ماہ بعد ہی اُسے ایک ناول نگار کے طور پر فرانس کے ساتھ ساتھ جرمنی میں بھی سراہا جا رہا ہے۔ اپنے باتصویر ناول ’فریڈم ہاسپٹل‘ میں اُس نے ایک شامی شہر میں ایک امن پسند خاتون کارکن یاسمین کی جانب سے زخمی باغیوں کی مدد کے لیے قائم کیے گئے ایک غیر قانونی ہسپتال میں پیش آنے والے ہولناک واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ دو سو اَسّی صفحات پر مشتمل اس ناول کی کہانی ایک ہزار ایک سو بیس ڈرائنگز کی مدد سے بیان کی گئی ہے۔
اس ناول میں زخمی باغیوں کے ایک گروپ اور اُن کا علاج کرنے والے ہسپتال کے عملے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ کہانی کبھی اتنی ڈراؤنی ہو جاتی ہے کہ قاری کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ کبھی کبھی اس میں دلگداز اور ساتھ ساتھ مزاحیہ واقعات بھی ملتے ہیں اور قاری کو پتہ چلتا ہے کہ کیسے انقلاب کی مثالیت پسندی خون کے دریا میں غرق ہو گئی ہے۔
حامد سلیمان بنیادی طور پر ایک مصور ہے، جس نے 2011ء میں شام میں حکومت کے خلاف شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر بلیک اینڈ وائٹ ڈرائنگز بنانا شروع کیں۔ کچھ ہی عرصے بعد پولیس نے اُسے حراست میں لے لیا اور ایک ہفتے تک کے لیے جیل بھیج دیا۔ بعد ازاں اُسے غیر متوقع طور پر رہا کیا گیا لیکن یہ کہہ کر کہ اُس پر ’دہشت گردی کی حمایت‘ کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حامد سلیمان نے فوراً ایک ٹیکسی لی اور شام چھوڑ کر اردن کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
حامد سلیمان کے مطابق وہ خوش قسمت تھا کہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا جبکہ اُس کے کئی دیگر دوست ایسا نہ کر سکے۔ اُس نے اپنا یہ ناول اپنے بہترین دوست حسام خیاط کے نام کیا ہے، جسے تین سال پہلے بشار الاسد کی پولیس نے تشدد کا نشانہ بنا کر مار ڈالا۔ سلیمان کے مطابق ’اُس کی عمر چوبیس برس تھی، وہ صرف اپنی پڑھائی مکمل کرنا چاہتا تھا اور کسی طرح کی حکومت مخالف سرگرمیوں کا حصہ بھی نہیں تھا‘۔ حامد سلیمان کے دیگر کئی دوست احباب اور جاننے والے بھی اب دنیا کے کونے کونے میں پناہ کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔
حامد سلیمان کے ناول میں جنگ کی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ انتہا درجے کی مایوسی میں بھی محبت اور انسانی وقار کا علم بلند رکھنا ممکن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ناول کے ذریعے اُن لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، جنہوں نے ایک مقصد کے لیے جدوجہد کی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کیسے ہسپتال میں زیرِ علاج رہنے والا ایک قدامت پسند ٹیکسی ڈرائیور بالآخر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب سے شہر کا امیر بن جاتا ہے۔
سلیمان کے مطابق ’جنگ ایک کاروبار بھی ہے‘، چنانچہ اُس نے اس ناول میں یہ بھی بتایا ہے کہ سارا اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے، ’روس، امریکا اور فرانس سے‘۔ سلیمان کے مطابق وہ خوش قسمت ہے کہ اُسے ایک ایسا ٹھکانا مل گیا ہے، جہاں وہ سکون کے ساتھ بیٹھ کر تخلیق کر سکتا ہے: ’’میں محبت کرتا ہوں اور مجھے محبت مل رہی ہے اور یہی چیز سب سے زیادہ اہم ہے، اس پر ایک اچھے مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔‘‘