میدان عرفات میں بیس لاکھ سے زائد حجاج کا اجتماع
10 اگست 2019مسلمان کے مذہبی فرائض میں استطاعت ہونے کی صورت میں مکہ کا سفر اختیار کر کے حج کرنا بھی شامل ہے۔ حج کے فرائض کی ادائیگی میں وقوف عرفات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قیام عرفات کو حج کا نقطہ عروج بھی قرار دیا جاتا ہے۔ حج شروع ہونے کے دوسرے دن تمام زائرین منیٰ سے ظہر کی نماز سے قبل عرفات کے میدان پہنچ جاتے ہیں۔ ہفتہ دس اگست کو جبل عرفات کے دامن میں واقع مسجد نمرہ کے ارد گرد بیس لاکھ سے زائد مسلمان جمع ہوئے۔
وادئ عرفات میں قیام کے دوران خطبہ حج کو سننا بھی اہم ہے۔ دس اگست کو یہ خطبہ امام الشیخ محمد بن حسن آل الشیخ نے دیا۔ ذرئع ابلاغ کی ترقی کے بعد اب عربی میں دیے جانے والے خطبے کا ترجمہ کئی زبانوں میں انٹرنیٹ پر براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ میدان عرفات مکہ کے مقدس شہر سے بیس کلومیٹر کی دوری پر مشرق کی طرف واقع ہے۔
میدان عرفات پہنچنے سے قبل بیس لاکھ سے زائد مسلمانوں نے منیٰ میں ہزاروں خیموں میں رات بسر کی تھی۔ عرفات میں خطبہٴ حج سننے کے بعد ظہر اور عصر (ظہرین) کی نمازیں ایک ساتھ ادا کی گئیں۔ حج کے معمولات کے مطابق زائرین نمازوں کی اکھٹی ادائیگی کے بعد اگلی منزل مزدلفہ کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔ مزدلفہ پہنچ کر تمام زائرین شام اور رات کی نمازیں (مغربین) ادا کرتے ہیں۔
سعی صفا و مروہ، شیطان کو کنکریاں مارنا اور قربانی بھی حج کا حصہ ہیں۔ نو اگست سے شروع ہو کر حج کی تمام مذہبی رسومات کی تکمیل منگل تیرہ اگست کو ہو گی۔
سعودی عرب کی وزارت حج کے مطابق رواں برس ماضی کے مقابلے میں حج ادا کرنے والے مسلمانوں کی تعداد کم ہے جب کہ سہولیات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ان سہولیات میں مکہ سے مدینہ تک تیز رفتار ایئر کنڈیشنڈ ریل گاڑیاں متعارف کرایا جانا بھی شامل ہے۔ وزارت حج کے مطابق منیٰ میں چھبیس لاکھ مسلمانوں کے لیے خیموں کی تنصیب کی گئی تھی لیکن زائرین کی تعداد اتنی نہیں تھی۔
یہ امر اہم ہے کہ رواں برس حج ایک ایسے وقت پر کیا جا رہا ہے، جب خلیج فارس میں ایران اور امریکا کے مابین کشیدگی میں غیرمعمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ سعودی عرب اس کشیدگی میں کھلم کھلا امریکا کا اتحادی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب ہمسایہ ملک یمن کی خانہ جنگی میں بھی عملی طور پر شریک ہے۔ پانچ برسوں سے جاری یمنی جنگ میں ہزاروں انسان ہلاک اور بہت سے شہروں، قصبوں اور دیہات کی تباہی و بربادی کے باعث لاکھوں قحط کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں۔
ع ح، م م ⁄ ڈی پی اے، نیوز ایجنسیاں