’’میرا خاندان بھارتی کیسے نہیں‘‘
11 اگست 2018بھارت کی مشرقی ریاست آسام میں چاول کاشت کرنے والے ایک کسان عبدالمنان کے پانچ میں سے ایک بچے کو بھارتی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا، جب کہ ان کی بیوی اور بہو تک کو ’غیرقانونی تارکین وطن‘ قرار دیا جانے لگا۔ عبدالمنان کا کہنا ہے کہ یقیناﹰ حکام سے کوئی غلطی ہو رہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ مقامی حکام بہ ضد ہیں۔
بھارت: 36 برس گزر گئے، مسلم شہری شناخت کی تلاش میں
بھارت گائیوں کو بائیو میٹرک طرز پر شناختی نمبر الاٹ کرے گا
50 سالہ عبدالمنان نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا، ’’ہم حقیقی بھارتی ہیں۔ ہمارا خاندان 1930 سے اس علاقے میں بسا ہوا ہے۔ مجھے معلوم نہیں غلطی کہاں ہو رہی رہی ہے۔‘‘
شناخت کے حوالے سے آسام میں جاری سیاست کے اعتبار سے اب عبدالمنان کی طرح قریب چالیس لاکھ افراد کو اپنی ’شہریت‘ ثابت کرنا ہے۔ آسام میں غیرقانونی تارکین وطن کی موجودگی اور اس انداز کے سوالات اور کشیدگی ماضی میں خون ریزی تک کا باعث بن چکے ہیں۔
آسام میں بہت سے افراد کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش سے بہت بڑی تعداد میں افراد غیرقانونی ترک وطن کر کے آسام میں رہائش پذیر ہیں اور اس ریاست میں ان کی تعداد مقامی افراد سے بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے اعلیٰ عہدیدار سموجل بھٹاچاریا کے مطابق، ’’بھارت بھارتی شہریوں کے لیے ہے۔ آسام بھارتی شہریوں کے لیے ہے۔ آسام غیرقانونی بنگلہ دیشی شہریوں کے لیے نہیں۔‘‘
آل آسام اسٹوڈنٹ یونین آسام میں غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف اور شہریت کے حوالے سے عوامی جائزے کے اعتبار سے نہایت سرگرم ہے۔ بھٹاچاریا نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا، ’’ہم اس مسئلے کا مستقل حل چاہتے ہیں۔‘‘
جمعے کے روز قریب انتالیس لاکھ افراد کو ریاست کی جانب سے شہریت ثابت نہ کر پانے کے بعد اپیل کے فارمز دیے گئے ہیں۔ بہت سے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ عمل بہت سے افراد کو گرفتاری، ملک بدری یا طویل المدتی غیریقینی صورت حال کا باعث بنا سکتا ہے۔
ع ت، ع ب (اے پی)