نئی دہلی مذاکرات: بھارت کا ترجیحی موضوع سلامتی
24 فروری 2010نئی دہلی میں ہونے والی اس ملاقات میں بھارت کے لئے ترجیحی مسئلہ سلامتی کا ہے۔ بھارت نے جامع مذاکرات کے لئے یہ شرط لگائی تھی کہ پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
بھارت کی سیکریٹری خارجہ نروپما راؤ نے گزشتہ پیر کو ایک بار پھر اس بات کا اشارہ دیا کہ دہشت گردی کا مسئلہ مذاکرات کا بنیادی نکتہ ہوگا۔ تاہم پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اگر بھارت صرف سلامتی کے موضوع کو بات چیت کا محور بنانے پر اصرار کرے گا، توان مذاکرات میں مطلوبہ پیش رفت نہیں ہوسکے گی۔
کشمیر کی وجہ سے دونوں ممالک میں تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ جہاں بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے وہاں اسلام آباد کا موقف یہ ہے کہ اس متنازعہ مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے اور کشمیر میں استصواب رائے کرایا جائے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں ایک بڑی بہتری کی امید نواز شریف کے دوسرے دورحکومت میں پیدا ہوئی تھی، جب بھارتی وزیرِاعظم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ لیکن کارگل کی جنگ کے بعد تعلقات پھرکشیدہ ہو گئے تھے۔
پاکستان نے 2003 میں یہ تجویز دی تھی کہ اسلام آباد اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اصرار نہیں کرے گا، اگر نئ دہلی لائن آف کنڑول پر نرمی دکھائے اور کشمیریوں کو اپنے معاملات خود چلانے دے۔ اِن اُمور کی پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر نگرانی کرسکتے ہیں۔ تاہم اس پاکستانی تجویز پر زیادہ کام نہیں ہوسکا۔
دونوں ممالک میں پانی کی تقسیم بھی ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے 1960 میں سندھ طاس معاہدہ کیا گیا تھا۔ پاکستان کا دعوٰی ہے کہ بھارت ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر سے پاکستان کوآنے والے پانی کا رخ موڑ رہا ہے۔ تاہم نئی دہلی ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
سطح سمندر سے 18000 ہزارفٹ اونچا سیاچن کا علاقہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان باعثِ نزاع رہا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں جو حصے اس کے پاس ہیں، پاکستان کو ان پر بھارت کا حق باضابطہ طور پرتسلیم کر لینا چاہیے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ وہ ایسا کرنے کے لئے تیار ہے لیکن یہ قبولیت مستقل بنیادوں پر نہیں ہوگی۔
اس کے علاوہ سر کریک کا تنازعہ اور افغانستان میں دونوں ممالک کی اثرورسوخ کے لئے کوششیں بھی تعلقات میں کشیدگی کا باعث رہی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ سارے ہی مسائل ایسے ہیں، جن کو دونوں ممالک اپنے اپنے زاویہ فکر کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم مذاکرات میں یہ زاویے تبدیل بھی ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: عدنان اسحاق