نائجیریا: اسکول کی طلبا کے اغوا کے چھ ماہ گزرنے پر ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
14 اکتوبر 2014وکیل ابراہیم موسیٰ عبدلٰہی کو آیا اس امر کا اداراک تھا کہ وہ کس طوفان کا سامنا کرنے جا رہے ہیں یا نہیں؟ اس سے قطع نظر 14 اپریل 2014 ء کو نائجیریا میں دہشت گرد تنظیم بو کو حرام کے ہاتھوں اسکول کی 200 طلبا کے اغوا کے فوراً بعد انہوں نے نائجیریا کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا،’’ ہماری بچیوں کو واپس لایا جائے‘‘ ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ٹوئٹر پر بھی ایک پیغام میں لکھا تھا، ’’ہماری بچیوں کو واپس لاؤ‘‘ ۔
آج سے ٹھیک چھ ماہ قبل رونما ہونے والے اس واقعے کے بعد نائجیریا بھر میں ہر طرف یہی صدا گونج رہی تھی،’’ ہماری بچیوں کو واپس لایا جائے‘‘ ۔ اغوا ہونے والی بچیوں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ گہری ہمدردی رکھنے والی خواتین اور مائیں نہ صرف لڑکیوں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہی تھیں بلکہ اس عمل میں نائجیریا کی حکومت کو نا اہل قرار دیتے ہوئے اُس پر سخت برہمی کا اظہار کر رہی تھیں۔
نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا کی سڑکوں پر 200 بچیوں کے اغوا کے واقعے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ چند ہفتوں تک جاری رہنے کے بعد بند ہوا اور ساتھ ہی ان مظاہروں کا انعقاد امریکی شاہراہوں پر ہونے لگا۔ وہاں امریکی عوام نائجیرا میں اغوا ہونے والی بچیوں کی بازیابی کے لیے امریکی فوجی تعیناتی کا مطالبہ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ امریکا کی خاتون اول میشل اوباما نے بھی اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے نائجیزیا کی اغوا شدہ بچیوں کی بازیابی کی تمنا کا اظہار کیا تھا۔ امریکا میں روایت ہے کہ صدر ہر ہفتے قومی نشریاتی رابطے پر ریڈیو اور انٹرنیٹ پر خطاب کرتا ہے۔ گزشتہ مئی میں ایک ہفتہ وار خطاب کے موقع پر صدر اوباما کی جگہ اُن کی اہلیہ نے تقریر کی۔ اپنی تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ نائجیریا کی طلبا کے اغوا پر دنیا بھر کے لاکھوں انسان شدید دکھی ہیں۔ امریکی خاتون اول نے اس اغوا کو ایک دہشت گردانہ واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اُن لوگوں کی حرکت ہے جو لڑکیوں کی تعلیم کے دشمن ہیں۔ میشل اوباما نے اپنی تقریر میں ان طالبات کی بحفاظت واپسی کے لیے امریکی عوام سے دعا کرنے کی درخواست بھی کی۔ امریکی صدر کی اہلیہ نے تقریر میں کہا کہ وہ اور اُن کے شوہر اِن اغوا شدہ بچیوں کے چہروں میں اپنی بیٹیوں کو محسوس کرتے ہیں۔
میشل اوباما کی اس تقریر سے نائجیریا کی بچیوں کے اغوا کے واقعے پر اُن کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کی مہم کو ایک نئی تحریک مل گئی۔ تاہم اس کا تعلق نہ تو نائجیریا کے وکیل ابراہیم موسیٰ عبدلٰہی اور نہ ہی نائجیریا میں اس مہم کو شروع کرنے والوں میں سے کسی اور سے تھا۔ چند ہی روز میں ابوجا حکومت کی نااہلی اور اُس کی بدعنوانی کے خلاف سول سوسائٹی کی احتجاجی مہم نائجیریا میں امریکی مداخلت کا سبب بن گئی۔
تنہا2013 ء میں نائجیریا میں 546 امریکی فوجی سرگرمیاں عمل میں لائی گئی تھیں جن کا مقصد امریکی سلامتی اور مفادات کو تقویت پہنچانا تھا۔ اس بارے میں کسی کو بھی سازشی نظریہ پیش کرنے والا بننے کی ضرورت نہیں۔ اس کا اظہار تو نائجیریا کی ایک مصنفہ جوموک بالوگن ان الفاظ میں اپنے ایک آرٹیکل میں امریکا کی نامور شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے کر چُکی ہیں۔ ’’امریکا کے پیارے لوگ کیا آپ نائجیریا کے باشندے ہیں؟ کیا آپ کو نائجیریا کے جمہوری عمل میں حصہ لینے کے آئینی حقوق حاصل ہیں؟ میرے پاس آپ کے لیے ایک خبر ہے، آپ کی مہم نائجیریا میں جمہوری عمل اور یوناتھن سرقہ حکومت کے خلاف ہماری مہم کو کھوکھلا اور کمزور بنانے کا سبب ہے‘‘ ۔